تاریخ


}}


تاريخ

پاکستان دنیا کے جس خطے میں واقع ہے ہر دور میں ہزاروں برس سے اس خطے کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے


موئنجو ڈارو ہڑپا،ٹیکسلا اور آمری تہزیب کے آثار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہمیشہ ہی سے دریائے سندھ کے مشرق اور مغرب میں واقع اس خطے کو انتہائی اہمیت حاصل رہی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے اس  حصے میں واقع ہے جس سے گزرے بغیر ایران ترکی وسطی ایشیا،اور مشرق وسطی کی اقوام کبھی برصغیر میں داخل نہیں ہو سکتی تھیں پاکستان
کی تاریخ جب بھی مرتب کی جائے گی تو اس خطے کی تاریخ کو ہمیشہ ہی مد نظر رکھنا پڑے گا اگر چے کہ موجود ہ پاکستان  1947 میں آزاد ہوا

محمد بن قاسم
اور یوں      برصغیر (موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑی  ریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے جس کا دارالحکومت دمشق، زبان عربی اور مذہب اسلام تھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پر عرب دنیا سے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اور جنوبی ایشیاء کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔711 میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں محمد بن قاسم برصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے
سن 1947 سے پہلے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش برطانوی کالونی تھے اور برصغیر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی (انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحت تحریک پاکستان وجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادت قائد آعظم محمد علی جناح نے کی۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا۔
 تقسیم برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1948اور 1965 میں کشمیر کے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔ اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریا انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر سے ہوکر آتے تھے لہذا پاکستان کو 1960 میں انڈیا کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرنا پڑا جس کے تحت پاکستان کومشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی سے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہ دریائے سندہ، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔
1947
 سے لے کر 1948 تک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بھارت نے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔
 اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے پورے مشرقی اور مغربی پاکستان میں صرف ایک سیمنٹ فیکٹری تھی جو کراچی میں واقع تھی  اسی طرح کوئی اسٹیل مل نہ تھی فارما سیٹیکل انڈسٹری نہ ہونے کے برابر تھی کپاس کی بہت بڑی فصل ہونے کے باوجود اس نوزائدہ  ملک میں کپڑے کی کوئی بڑی فیکٹری نہ تھی  چینی باہر سے امپورٹ کی جاتی تھی 
 یہ ہی صورت حال دیگر صنعتی شعبوں کے دیگر اداروں کی تھی   مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ 1948ء میں جناح صاحب کی اچانک وفات ہو گئیی۔ ان کے بعد حکومت لیاقت علی خان کے ہاتھ میں آئی۔ 1951 میں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ 1951ء سے 1958ء تک کئی حکومتیں آئییں اور ختم ہو گئییں۔ 1956ء میں پاکستان میں پہلا آئیین نافذ ہوا۔ اس کے با وجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا۔
پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیم جن میں تربیلا ڈیم  منگلا ڈیم اور دیگر ڈیم شامل ہیں  جنرل ایوب کے دور میں بنائیے گئیے۔
  م1963میں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا۔
ایوب دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکن مشرقی پاکستان دور ہوتا  چلا گیا۔ 
 مشرقی پاکستان کے دور ہوجانے  کے بارے میں نہ تو فکر کی گئی اور نہ ہی ان اسباب کے بارے میں غور کیا گیا جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے دور ہوتا چلا جارہا تھا 
 حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ ایوب خان عوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علیحدہ تو ہو گئے لیکن جاتے جاتے انہوں نے حکومت اپنے فوجی پیش رو جنرل ہحیٰی خان کے حوالے کر دی جو کہ اس کے بالکل بھی اہل نہ تھے۔
۔ 1971 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود فوجی حکمران یحیٰی خان نے اقتدار کی منتقلی کی بجائیے مشرقی پاکستان میں فوجی اپریشن کو ترجیح دی۔ ہندوستان نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکار دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہوگیا اور مشرقی پاکستان ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
یحیی خان کے مستعفی ہو جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم رہے ان کا دور حکومت20 دسمبر1971 سے لے کر 4 جولائی
۱۹۷۷تک رہا
  ۔ اس دور میں وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اس دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور  اس کے نتیجے میں 1977 میں دوبارہ مارشل لاء لگ گیا جنرل ضیا ء الحق نے زوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کردیا ۔
 اب  پاکستان کے حکمران جنرل ضیا الحق تھے۔ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے 1988 میں ضیاء الحق نے برطرف کر دیا- 1988ء میں صدر مملکت کا طیارہ گر گیا اور ضیاء الحق کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلٰی عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔  اب ملک کے نئے صدر غلام اسحاق خان بنے بری فوج کے سربراہ میرزا اسلم بیگ بنے   ان کے دور میں پاکستان میں پھر سے جمہوریت کا آغاز ہو گیا۔
اس کے بعد 1988 میں انتخابات ہوئے اور بينظير بھٹو کی قیادت میں پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں وفاق میں اور صوبہ سندھ میں اور صوبہ سرحد میں   اقتدار میں آئیں۔صوبہ پنجاب میِں صوبائی  حکومت  نواز شریف کے پاس گئی بلوچستان کے وزیر اعلی نواب اکبر خان بگٹی بنے  جبکہ  کچھ عرصہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1990 میں نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ 1993 میں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔اب کی بار نواز شریف اور غلام اسحاق خان کے درمیان شدید ترین اختلافات پیدا ہوئے ان اختلافات کے نتیجے میں جہاں غلام اسحاق خان کی  صدارت کا خاتمہ ہوا وہیں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ ن کی حکومت کا بھی خاتمہ ہوگیا وسیم سجاد ملک کے نئے عبوری صدر بنے جبکے عبوری وزیر آعظم قصور سے تعلق رکھنے والے ورلڈ بنک کے معین قریشی منتخب کیئے گئے  ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے

اگلے انتخابات 1993 میں ہوئے اور ان میں دوبارہ پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔اس کے بعد پاکستان کے نئے صدر فاروق لغاری بنے۔مگر پیپلز پارٹی کے اپنے منتخب صدر اور وزیر آعظم بے نظیر بھٹو  کے درمیان جلد ہی اختلافات پیدا ہوگئے  جس کے نتیجے میں  صدر فاروق احمد لغاری کے حکم پر بے نظیر بھٹو کی حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔ 1997 میں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1999 میں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکت پرويز مشرف بنے اور 2001 میں ہونے والے انتخابات کے بعد وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بنے۔

2004
میں جنرل مشرف نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کا فيصله کیا . مختصر عرصہ کے لیے چوہدرى شجاعت حسين نے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سرانجام دیں اور شوکت عزیز کے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔ شوکت عزیز صاحب قومی اسمبلی کی مدت 15 نومبر 2007ء کو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16 نومبر 2007ء کو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ فروری 2008ء میں الیکشن کے بعد پی پی پی پی نے جناب یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کیا جنہوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اس وقت ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم شائد ثابت ہو سکیں جو اپنی مدت مکمل کرسکیں 
پرویز مشرف کے مستعفی ہو جانے کے بعد ملک کے نئے صدر آصف علی زرداری  بنے  یہ ملک کی تاریخ کے پہلے سیاسی صدر ہیں جو شائد اپنی مدت صدار مکمل کرسکیں



1 comment:

  1. Great, history of Pakistan's politics in shortest possible words.

    ReplyDelete