پاکستان کا دفاعی ادارہ آئی ایس آئی

آئی ایس آئیISI
دنیا کے کسی بھی اہم یا طاقتور ملک یا چھوٹے سے ملک کے دفاع میں جہاں افواج اور وسائل نے اہم کردار ادا کیا ہے و ہیں یہ کردار ان اداروں نے بھی ادا کیا ہے جن کو عرفِ عام میں انٹیلی جنٹس ادارے کہا جا تا ہے قدیم دو ر کی تمام جنگوں کا جائزہ لے لیں یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ ان جنگوں میں فتوحات کا ایک سبب بہتر اطلاعا ت کا حصول تھا یہ ہی وجہ ہے کہ جنگ میں کامیابی کا حصول اس شعبے سے مشروط تصور کیا جاتا ہے قدیم دور میں رسول اللہ ﷺ،سکندر اعظم، اشوک اعظم، ایرانی بادشاہ خورس کے دور میں، خلفا راشد ینؓ کے دور میں، ا سلامی سپہ سالار حضرت خا لدؓ بن ولید، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اور حضرت عمرؓبن العاص، محمدبن قاسم طارق بن زیاد، سلطان صلاح الدین ایوبی،ملک ظاہر بیبرس، چنگیز خان، ہلاکو خان، تیمور لنگ، عثمانی خلفاء ،نیپولین بونا پارٹ نے جتنی بھی جنگیں لڑیں ہیں ان سب جنگوں میں اسی شعبے نئے اہم ترین کردار ادا کیا تھا پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران اس شعبے نے اہم ترین کردار ادا کیا اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد تما م سرد جنگ اسی شعبے کی بنیاد پر لڑی گئی ۔
اس وقت مضبوط دفاع کا اہم ترین حصہ یہ سراغرسانی تصور کیا جاتا ہے اسی لئے اس وقت دنیا کے تمام ممالک میں اس شعبے پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے اور اس شعبے میں کسی بھی طرح کی کمزوری کے باعث ملک کا دفاع کمزور تصور کیا جاتا ہے۔موجودہ صنعتی دور میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران سراغرسانی کے اداروں کو بہتر اور اچھا بنانے کی جانب زیادہ توجے دی گئی دونوں جنگ عظیموں کے دوران دونوں متحارب فریقین نے اپنے اپنے سراغرسانی کے اداروں کے زریعے دشمن کو ناقا بلِ تلافی نقصان پہنچایادوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمن خفیہ ایجنسی گستاپو کا نام دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ ابھر کے سامنے آیایہ 1933میں قائم کی گئی تھی یہ جرمن سیکرٹ اسٹیٹ پولیس تھی اس کا انتظام نازی پارٹی کے سپرد تھا جب کہ دیگر جرمن ادارے بھی کام کرتے رہے۔ ان میں جرمن ادارےAbwehr ایبویہر اور Sichereitine سئشائیر سٹائن شامل تھے ان میں Abwehr کا تعلق ملٹری سے تھا جب کے Sichereitineایس ایس SS کا تعلق ہٹلر کی نازی پارٹی سے تھا۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ اتحادی ملکوں کے مختلف اداروں کے نام بھی سامنے آئے ان میں برطانیہ کا مشہور و معروف ادارہ MI5 اور MI6 شامل ہیں ان اداروں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں MI5 ملٹری انٹیلی جنٹسیز سیکشن فائیو Military Intelliences section 5 سے بنتا ہے جب کے MI6 ملٹری انٹیلی جنٹیز سیکشنMillitary Intelligence section6 سے بنتا ہے یہ ادارے 1909 میں قائم ہوئے تھے بنیادی طور پر یہ ملٹری انٹیلی جنٹس کا حصہ ہیں ان اداروں کی کارکردگی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بہت بہتر رہی ہے مگر سرد جنگ کے دوران ان اداروں کا نام مشہور و معروف فلمی سلسلے جیمز بانڈ کی زیروزیرو سیون کی فلموں کی وجہ سے مشہور ہوا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی جیمز بانڈ کی کوئی نئی فلم ریلیز ہوتی ہے تو اس کے افتتاحی شو میں ملکہ برطانیہ اور شاہی خاندان کے اراکین ضرور شرکت کرتے ہیں یہ بات واضح رہے کہ سابقہ سویت یونین او ر کیمونسٹ بلاک کی جانب سے ان فلموں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ امریکی پروپیگنڈہ ہے اسی لئے جیمز بانڈ سیریز میں سب سے پہلے جیمز بانڈ کا کردار ادا کرنے والے اداکار سین کونری نے جو آج بھی مقبول ہیں جیمز بانڈ کا کردار ادا کرنا ترک کردیا تھا ) دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایم آئی5اور اس سے ملتے جلتے اداروں نے اگرچے کہ اپنے محوری دشمنوں کا مقابلہ کیا مگر اس کے باوجود بعض معاملات میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران اپنے جرمن دشموں کا مقابلہ نہ کرسکنے کے باعث ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا جس کا نام Special Operation
Executive رکھا گیا اس کا مخفف SOE بنتا ہے یہ تمام اتحادی ممالک کے سیکرٹ سروسز کے اشتراک سے بنایا گیا تھا اس کا بنیادی مقصد نازی جرمنوں اور ان کے اتحادیوں کے خلاف کاروائی کرنا تھا ۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی مشہور و معروف امریکی سراغرسانی کاادارہ سینٹرل انٹیلی جنٹس ایجنسی Central Intelligence Agency(سی آئی اے) CIAکو قائم کیا گیا قیام کے وقت اس ادارے کا بنیادی مقصد امریکا کا دفاع اور امریکا کے مخالفین کے خلاف کاروائی کرنا تھا اس وقت CIA کے ساتھ ہی مزید ادارے بھی قائم کئے گئے جن کے نام یہ ہیں National Security Agency اس کا مخفف ہے NSA اور اس کے ساتھ دوسرا اہم ترین ادارہDefense Intelligence Agency یہ DIA کے نام سے جانی جاتی ہے مگر ان اداروں کے ساتھ ہی ساتھ ایک اور اہم ادارہ بھی موجود تھا جو اس وقت بہت مشہور ہے اس کا نام ہے FBIایف بی آئیFederal Bureau of investigation تھا یہ گذشتہ صدی کی ابتدا 1909میں قائم کیا گیا تھاجب کے اس کو 1934 میں امریکا کی اہم ترین اور قومی ایجنسی قرار دیا گیادوسری جنگِ عظیم کے دوران اس نے اہم ترین کردار ادا کیا دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد جب سردجنگ کا آغاز ہوا تو جاسوسی اور سراغرسانی کا انداز تبدیل ہو گیااسی دوران برصغیر جنوبی ایشیا میں اہم ترین تبدیلیاں رونما ہوئیں ان تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں آئی۔
آئی ایس آئی کا قیامقیام پاکستان کے بعد جب عالمِ اسلام کی اس سب سے بڑی مملکت کی تعمیر ترقی اور دفاع کا معاملہ زیرِ بحث تھا اس وقت پاکستان کے دشمنوں کی آرا کے مطابق اس نوزائدہ مملکت کا زندہ رہنا زیادہ مدت تک ممکن نہ تھا اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی سلامتی ،استحکام اور دفاع کے لئے ضروری تصور کیا کہ پاکستان میں ایک نیا اور ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو کہ خالصتاًپاکستانی بنیادوں پرانٹیلی جنٹس کے جدید تقاضوں کے مطابق کام کرسکے اُس مقصد کے لئے جولائی 1948 میں آئی ایس آئی کا قیام عمل میں آیا یہ بات واضح رہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کو ورثے میں جو ادارے ملے تھے ان میں ملٹری انٹیلی جنٹس اور دیگر ادارے شامل تھے مگر ان اداروں کی موجودگی کے باوجود قائد اعظم نے ضروری تصور کیا کہ ایک نیا ادارہ قائم کیا جائے جو کہ خالصتاً پاکستانی تصورات اور فکر کے مطابق پاکستان کے دفاع کئے لئے فرائض انجام دے اس وقت ان کے احکامات پر آئی ایس آئی کی بنیاد رکھی گئی آئی ایس آئی پاکستان کے ا ن چند اداروں میں سے ایک ہے جن کی بنیاد قائد اعظم نے رکھی آئی ا یس آئی کا بنیادی مقصد ایک ہی تھا کہ پاکستان کے دشمنوں کے عزائم کے بارے میں واقفیت اس مقصد کے لئے ا س کے پاس کئی دائرے تھے بنیادی مقصد تھا ملک دشمن عناصر اور قوتوں کے بارے میں آگاہی خواہ وہ کسی بھی فیلڈ میں کام کررہے ہوں قائد اعظم کی وفات کے بعد آئی ایس آئی نے سیاست دانوں کی سر گرمیوں کا بھی جائزہ لینا شروع کردیا قیا مِ پاکستان کے وقت اس نئی مملکت کی بے سرو سامانی کے اثرات اس نئے بننے والے ادارے پر بھی پڑے یہاں بھی وسائل کی کمی تھی اور مسائل کی زیادتی قیام کے وقت نہ تو کوئی دفتر تھا اور نہ ہی کوئی عملہ اور نہ ہی تجربہ کار اسٹاف کراچی کے ایک چھوٹے سے گھر میں آئی ایس آئی کو قائم کیا گیا تھا مگر پاکستان کی خدمت اور دفاع کے جذبے سے سر شار اس کے اراکین نے محنت اور جذبے کے ساتھ جس طرح سے کام کا آغاز کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
آئی ایس آئی کے بانی میجر جنرل شاہدحامد (جو کہ بعد میں شہید جنرل ضیاء الحق کی پہلی کابینہ میں وزیر رہے ہیں ) آئی ایس آئی کے بانی تھے اور اس کے پہلے سربراہ مقرر کئے گئے آئی ایس آئی کے قیام کے وقت شاہدحامد بریگیڈئیر کے عہدے پر فائز تھے اس طرح آئی ایس آئی کے پہلے سربراہ بریگیڈئر کے عہدے کے حامل تھے انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اس وقت کے سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا جو کہ بعد میں پاکستان کے صدر بنے انہوں نے اس پاکستانی ادارے کے قیام کے سلسلے میں
اس وقت میجر جنرل شاہد حامد کے ساتھ تعاؤن کیا۔
تاریخ
1947‏ میں آزادی حاصل کرنے کے بعد دو نئی انٹیلیجنس ایجنسیوں انٹیلیجنس بیورو اور ملٹری انٹیلیجنس کا قیام عمل میں آیا.لیکن خفیہ اطلاعات کا تینوں مسلح افواج سے تبادلہ کرنے میں ملٹری انٹیلیجنس کی کمزوری کی وجہ سے ‏I.S.I‏ کا قیام عمل میں لایا گیا. 1948‏ میں ایک آسٹریلوی نژاد برطانوی فوجی افسر میجر جنرل رابرٹ کاتھوم (جو اس وقت پاکستانی فوج میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے) نے ‏I.S.I‏ قائم کی.اس وقت آئی ایس آئی میں تینوں مسلح افواج سے افسران شامل کیے گئے.

 تنظیم

14 جولائی 1948ء میں لیفٹیننٹ کرنل شاہد حمید جنہیں بعد میں دو ستارہ میجر جنرل بنایا گیا
.پھر میجر جنرل (ریٹائرڈ)سکندر مرزا (جو اس وقت ڈیفنس سیکرٹری تھے) نے انہیں ملٹری انٹیلیجنس کا ڈائریکٹر بنا دیا.
پھر انہیں آئی ایس آئی کی تنظیم کرنے کو کہا گیا.اور انہوں نے یہ کام میجر جنرل رابرٹ کاتھوم (جو اس وقت ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے) کی مدد سے کیا.تینوں مسلح افواج سے افسران لیے گئے.اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سویلین بھی بھرتی کیے گئے.I.S.I کی موجودہ ترقی کے پیچھے میجر جنرل کاتھوم کا ذہن کارفرما تھا.
جو I.S.I کے 1950-59 تک ڈائریکٹر جنرل رہے. I.S.I آئی ایس آئیکا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں واقع ہے.اسکا سربراہ حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل ہوتا ہے.اسکے ماتحت مزید 3 ڈپٹی ڈائریکٹر جنرلز کام کرتے ہیں.آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا ہیں
آئی ایس آئی کا پہلا کارنامہ آئی ایس آئی کو اپنے زرائع سے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر پر حملے کی تیاریاں کیں جارہیں ہیں تاکہ آزاد کشمیر پر قبضہ کیا جاسکے اس مقصد کی خاطربھارت نے آزاد کشمیر کے اطراف میں افواج کو جمع کرنا شروع کردیا اس وقت بھارتی حکمرانوں کے نزدیک پاکستان کی قوت اس قدر نہ تھی کہ بھارت کا مقابلہ کیا جاسکے اس لئے اس نے آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کی تیاریاں کرلیں تھیں آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ اور بانی میجر جنرل شاہد حامد کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو براہ راست اس بات سے آگاہ کیا جس کے نتیجے میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو اپنا وہ مشہور اور تاریخی مکہ دکھایا اس تقریر کے نتیجے میں بھارتی حکمرانوں کے ارادوں میں تبدیلی آگئی اوراس طرح بھارتی افواج کشمیر میں داخل نہیں ہو سکیں ۔
شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان کے قتل کی سازشاسی طرح آئی ایس آئی نے1950میں یہ بات معلوم کرلی تھی کہ بعض سیاستدان لیاقت علی خان کی جان کے دشمن بن گئے ہیں اور انہیں قتل کرانے کی سازش کررہیں ہیں آئی ایس آئی نے متعلقہ اداروں کو اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ بعض ملک دشمن عناصر وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو قتل کروانے کی سازش تیار کررہے ہیں لیکن ان اعلیٰ حکام نے اس اطلاع پر توجے نہیں دی جس کے نتیجے میں 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں خان لیاقت علی خان قتل کردئے گئے یہ بات واضح رہے کہ آج بھی بعض حلقے اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ خان لیا قت علی خان کے قاتلوں کے بارے میں آئی ایس آئی نے کافی معلومات حاصل کرلیں تھیں جو کہ آج بھی ان کی فائلوں میں موجود ہے یہ فائلیں آئی ایس آئی کی الماریوں میں محفوظ ہیں ۔
آئی ایس آئی کا سب سے پہلا ہدف پاکستان دشمن قوتیں اور پاکستان دشمن عناصر ادارے اور ممالک اور شخصیات ہیں یہ ہدف قیام کے بعد سے آج تک بدستو ر قائم ہے اس میں کسی بھی طرح کی کوئی تبدیل واقع نہیں ہوئی ہے اسی لئے اس ہدف کے باعث بعض اوقات پاکستان دشمن قوتیں اور عناصر آئی ایس آئی کو اپنا ہدف بنا کر اس کے خلاف کاروائی اور پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب تک یہ ادارہ قائم ہے اس وقت تک وہ پاکستان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکتے ہیں اور ان کی تمام سازشیں یہ ادارہ ناکام بنا دے گا یہ بات ان کے لئے حیرت انگیز ہے کہ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ملک کا دفاعی ادارہ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ اس نے دنیا کی دوسری بڑی طاقت کے دفاعی ادار ے کے جی بی KGB کو شکست دیدی یہ ہی نہیں بلکے بھارتی ایجنسی را RAW کو بہت سے میدانوں میں شکست دی یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈہ ان اداروں کی جانب سے کیا جاتا ہے جو کہ آئی ایس آئی کے زخم خوردہ ہوتے ہیں ان کے اس پروپیگنڈے میں بعض پاکستانی بھی نادانستگی میں ان کا ساتھ دیتے ہیں یہ بات دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی کہ دیگر ممالک مثلاً روس، بھارت، اسرائیل، برطانیہ ،جرمنی اور امریکہ میں ان کے ان دفاعی اداروں کے خلاف نہ تو اپوزیشن کی جانب سے کوئی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کو پریس میں لایا جاتا ہے بلکہ ان کا امیج بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی واضح مثال جیمز بانڈ کی فلمیں ہیں جن کا مرکزی کردار جیمز بانڈ جو کے ایجنٹ نمبر زیرو زیرو سیون ہے ان فلموں کا مرکزی خیال ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے کہ ہیرو جیمز بانڈ یا ایجنٹ زیرو زیرو سیون ملٹری انٹیلی جنٹس کا رکن ہے اور ملکہ بر طانیہ اور برطانیہ کے دفاع کے لئے دشمنوں کی سرکوبی کرتا ہے اس مقصد کے لئے اس نے بہت سے کارنامے انجام دئے ہیں اگرچے کہ بظاہر یہ تفریح کا زریعہ ہے مگر برطانیہ جیسے ملک میں فلم کے اس زریعے کو اپنے ملک کے بہتر امیج کے لئے جس طرح استعمال کیا جارہا ہے اس کی یہ ایک معمولی مثال ہے دلچسپ ترین پہلوہے کہ ملکہ برطانیہ اور شاہی خاندان بڑی دلچسپی کے ساتھ ان فلموں کو دیکھتے ہیں اسی طرح دوسری جنگِ عظیم کے دوران اور اس کے بعد بنائی جانے والی فلموں گنز آف نیوران، عقابوں کا نشیمن یا وئیر ایگل ڈئیر کا موضوع اتحادی افواج کے جاسوسوں کی وہ کاروا ئیاں تھیں جو کہ انہوں نے جرمنوں کے خلاف انجام دیں تھیں اُسی طرح ابھی حال میں ہالی ووڈ میں بہت سی بنائی جانے والی فلموں میں امریکی ایجنٹوں کو امریکہ کے دشمنوں کا خاتمہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے جن میں مشہور امریکی اداکار آرنلڈ شوآرانگیز کی متنازعہ فلم ٹرو لائیزبھی شامل ہے جس پر عرب ممالک میں پابندی عائد کردی گئی تھی معا ضی میں بننے و الی ریمبو کی فلمو ں کا مرکزی آئیڈیا بھی امریکی دشمنوں کا خاتمہ تھا ریمبو کی ایک فلم افغانستان پر بنائی گئی تھی جس میں ریمبو کو افغانستان میں روسیوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اسی طرح پڑوسی ملک بھارتی فلمی شہر ممبئی میں بنائی گئی بہت سی ایکشن فلموں میں بھارت کے خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کی ان کاروائی کو دکھایا جاتاہے جو کہ پاکستان سمیت بھارت کے دشمن ممالک کے خلاف کیں گئیں ہیں ان فلموں کا بنیادی مقصدان ایجنسیوں کا امیج بھارتی عوام میں بہتر بنانا ہے یہ ہی صورتحال اسرائیل کے ادارے موساد کی ہے جو کہ اسرائیل کا اہم ترین ادارہ ہے بلکہ موساد کے لئے تو یہ بات کہی جاتی ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں بسنے والے یہو دی موساد اور دیگر اسرائیل اداروں کی مدد کرنا اپنا مذہبی فریضہ تصور کرتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ مو ساد کسی بھی طرح کا آپریشن باآسانی انجام دے دیتی ہے مگر افسو س کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ پاکستان کے اس اہم ترین ادارے کو جس کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان کا دفاع تھا جس کی بنیاد قائد اعظم نے رکھی تھی اس کو ہمیشہ ہی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے بلکہ بعض حلقوں کی جانب سے تو اس طرح کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ کسی طرح سے آئی ایس آئی کے خلاف کوئی مہم چلائی جائے حالانکہ اس طرح وہ ملک دشمن عناصر کی امداد کررہے ہوتے ہیں جب کہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک میں اپنے دفاعی اداروں کے خلاف کوئی کاروائی یا مہم نہیں چلائی گئی ہے۔
آئی ایس آئی کے  سربراہبریگیڈئیر شاہد حامد کے بعد کافی مدت تک آئی ایس آئی کے سربراہ بریگیڈئر کے عہدے کے افسر رہے لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ ) کے ایم اظہر جب کرنل کے عہدے پر فائز تھے اس وقت کے اسکندر مرزا پاکستان کے صدر تھے تو اس وقت کے ایم اظہر آئی ایس آئی کے قائم مقام سربراہ رہے تھے انہوں نے جنرل ایوب خان کو اسکندر میرزا کی اُن سازشوں کے بارے میں آگاہ کیا جو کہ وہ ایوب خان کے خلاف کررہے تھے کہ سات اکتوبر کو اسکندر میرزا ائیرفورس کے افسران کے زریعے فوج کے اعلیٰ افسران کو گرفتار کر لیں گیں۔ اِن ہی اطلاعا ت کی وجہ سے جنرل ایوب خان نے اسکندر میرزا کا تختہ الٹ دیا اور ملک کے پہلے مارشل ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن گئے ان کے بعد ایوب خان کے دور میں آئی ایس آئی کے ڈحانچے میں تبدیلی کی گئی جس کے بعدآئی ایس آئی کا سربراہ پہلے میجر جنرل کے عہدے کا بنایا جانے لگا اس کے بعد پھر یہ لیفٹنٹ جنرل کے عہدے کے ہو نے لگے مگر اب دوبارہ سے میجر جنرل کے عہدے کے افسر آئی ایس آئی کی کمان کرنے لگے ہیں۔
میجر جنرل اکبر خان بعد میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پرفائز ہوئے اور وہ اُن سات جنرلوں میں شامل تھے جو کہ سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق سے سینئر تھے سابق آرمی چیف جنرل ٹکا خان نے اپنے جانشین کے طور پر لیفٹنٹ جنرل اکبر خان کا نام پیش کیا تھا جسے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کرکے جنرل ضیاء الحق کو منتخب کیا تھا جنرل ضیاء الحق کے آر می چیف بن جانے کے بعد انہوں نے استعفیٰ دیدیا تھا۔
لیفٹنٹ جنرل غلام جیلانی یہ بھی ان سات جنرلوں میں شامل تھے جو کہ جنرل ضیاء الحق سے سینئر تھے مگر انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تھا اور ان کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کردیا گیا شہید جنرل ضیاء الحق جب کامیاب انقلاب کے نتیجے میں ملک کے سربراہ بن گئے تو جنرل غلام جیلانی پنجاب کے گورنر بنائے گئے لیفٹنٹ جنرل (ر) غلام جیلانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی تربیت کے نتیجے میں نواز شریف سیاستدان بن کر ابھرے۔
لیفٹنٹ جنرل ریاض یہ دوران ملازمت ہی انتقال کرگئے
لیفٹنٹ جنرل اختر عبدالرحمان ان کے د ور میں آئی ایس آئی کی حیئت میں تبدیلی لائی گئی جس کے نتیجے میں آئی ایس آئی نے ایک جانب افغانستان کے حوالے سے روس اور اس کے بین القوامی ادارے کے جی بی کا مقابلہ کیا دوسری جانب امریکی سی آئی اے کے ہم پلہ ہو گئی ۔
لیفٹنٹ جنرل حمید گل
لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) شمس الرحمان کلو اُن کو سابق وزیر اعظم بے نظیر صاحبہ اپنے پہلے دور اقتدار میں لائیں تھیں اس وقت اس فیصلے پر بہت نکتہ چینی کی گئی کہ ایک ریٹائرڈ افسر کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے ۔
لیفٹنٹ جنرل اسد درانی
لیفٹنٹ جاوید ناصر اُن کو عبوری وزیر اعظم بلخ شیر مزاری کے دور میں معطل کر دیا گیا تھا۔
لیفٹنٹ جنرل اشرف
لیفٹنٹ جنر ل ضیاالدین بٹ ان کو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا مگر ان کی تقرری کو کور کمانڈروں نے مسترد کردیا تھا جس کے نتیجے میں لیفٹنٹ جنرل ضیاء الدین بٹ اپنے نئے عہدے کا حلف نہیں اٹھا سکے پھر نواز شریف کی حکومت کا بستر ہی گول ہو گیا۔
میجرجنرل احسان ضمیر
میجر جنرل احمد زکی شفیع
لیفٹنٹ جنرل ندیم تاج
لیفٹنٹ جنرل پرویز اشفاق کیانی اب جنرل اور پاک فوج کے سربراہ
لیفٹنٹ جنرل شجاع پاشا
آئی ایس آئی اپنے ہم وطنوں کے لئے آئی ایس آئی کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان کا دفاع اور استحکام ہے اس مقصد کے لئے پاکستان کے دشمنوں کے خلاف آئی ایس آئی جس طرح کا بھی طریقے کا ر اختیار کرتی ہے اس کے نتائج ان ہی کی زبانی اس طرح سے سامنے آجاتے ہیں کہ ان کی جانب سے آئی ایس آئی کے لئے کوئی بھی کلمہ خیر برآمد نہیں ہوا ہے مگر ان پاکستانیوں کیلئے جو کہ انجانے میں دشمن کی سازشوں کا نشانہ بن جاتے ہیں کس طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس کی ایک مثال مشہور و معروف ادیبہ اور کالم نگار افضل توصیف کی زبانی سن لیں جو کہ انہوں نے اپنی کتاب لیبیا سازش کیس میں لکھی ہے۔
گیٹ سے اندر پچاس قدم چل کروہ سیڑھیاں تھیں جنہیں پار کر کہ اس پراسرارعمارت میں داخل ہوا جاسکتا تھا آخری سیڑھی پر میں نے دیکھا کئی محافظ مجھے اور لالہ کو نرغے میں لے چکے تھے اندرکا گیٹ جلد ہی کھل گیا آگے چوڑی گیلری میں ایک طرف ریسپشن قسم کی جگہ تھی کئی ٹیلیفون اور جانے کیاکچھ رکھا تھا دو وردی پوش بہت مستعد کھڑے تھے۔ ہم سے نام پوچھے گئے اور اندر کی ہدایت پر دوسری طر ف کمرہ کھول دیا گیا تشریف رکھیں ایک وردی پوش نے سرخ صوفے کی طرف اشارہ کیا یہ ایک عام سا بیٹھنے کا کمرہ تھا بظاہر صوفے میزیں۔ کافی دیر بیٹھے رہنے کے بعددروازے کا پردہ ہلا اور چا ئے کی سجی ہو ئی ٹرے اٹھائے ایک وردی پوش اندر داخل ہوا ۔ خوبصورت سیٹ۔ کیک بسکٹ۔ٹی کوزی کے اوپر لیزی ڈیزی ڈیزائین خاصا گھریلو اور ریلکس کرنے والا ماحول بن گیا مودب ملازم نے چائے انڈیلی اور پلیٹیں پیش کیں اور باہر چلا گیا لالہ کے چہرے پہ قدرے سکون دکھائی دیا اورچائے پیتے ہوئے ہم باتیں کرنے لگے۔
کتابیات (اردو)
آخری کمانڈر انچیف لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) گل حسن
ضیا الحق کے ہمراہ جنرل (ریٹائرڈ)کے ایم عارف
فاتح ہارون رشید
بھٹو ضیاء اور میں جنرل (ریٹائرڈ ) فیض علی چشتی
جنرل محمد ضیاء الحق ضیا ء السلام انصاری
پاکستان جرنیل اور سیاست علی حسن
لیبیا سازش کیس افضل توصیف
پاکستان میں انٹیلی جینٹس
ایجنسیوں کا کردار منیر احمد
ایجنسیوں کی حکومت اظہر سہیل
جو میں نے دیکھا منیر ا حمد منیر
پاکستان انقلاب کے دہانے پر روئداد خان
وسط ایشیا کا سفر آغا محمد اشرف
Silent Soldier
(Brigadier (ret) Mohd Yousaf)
Profiles Of Intelligencece . (Brigadier(ret)S Ahamed termazy)
The Ultimate Spy Book
(H Keith Melton)
SPY
(Richard Platt

No comments:

Post a Comment