صوبہ بلوچستان

بلوچستان
بلوچستان جہاں رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے وہیں بلوچستان پاکستان کاایسا صوبہ ہے جس کو کثیر لسانی و اقوامی صوبہ کہا جا سکتا ہے مگر رقبے میں بڑا ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں آبادی دیگر مقامات کے مقابلے میں اس طرح سے پھیلی ہوئی ہے کہ سینکڑوں میل تک آبادی کا دور دور تک نشان ہی نہیں ملے گا ہر جگہ زمین ہی زمین نظر آئے گی اور ان میں جگہ جگہ آبادی کے جزیرے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے اس سب سے بڑے اور آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹے صوبے میں بیک وقت کئی تہذیبیں اور نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں جو کہ اگر چے ناواقفیت کی بنا پر بلوچ کہلاتی ہیں مگر نہ تو ان کی زبان بلوچی ہے اور نہ ہی ان کو بلوچ کہا جاسکتا ہے


                                                              سکندر یونانی یا الیگزینڈردی گریٹ  نے ساسانی بادشاہ دارا کو شکست دینے کے بعد ضروری تصور کیا اس وقت کے تمام ایرانی مقبوضات پر اسی طرح سے قبضہ کرلے جس طرح دارا کے حکمرانی کے دور میں ایرانی حکومت کا اس خطے پر قبضہ تھا اس لئے سکندراعظم ایران کے بعد افغانستان میں داخل ہوا جہاں اس وقت زرتشت کے پیروکار بڑی تعداد میں موجود تھے اس کے بعد سکندراعظم صوبہ سرحد کے راستے وادئی سوات سے ہوتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں اترا جہاں پر اس کا مقابلہ دریائے جہلم کے کنارے مشہور راجہ پورس سے ہوا اگر چہ سکندراعظم کی افواج نے راجہ پورس کی افواج کو شکست دیدی مگر فاتح فوج اس فتح کا بوجھ اٹھا نہیں سکی اور اس کی اکثریت نے مطالبہ کردیا کہ اب آگے نہیں جائیں گے بلکہ ان کو بچوں اور بیویوں کی یاد ستا رہی ہے یہ ایسا مطالبہ تھا جس کو رد کرنا سکندراعظم کے لئے انتہائی مشکل تھا اور اس نے واپسی کا راستہ اختیار کیا واپسی کے سفر کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ سکندراعظم نے اپنی واپس جانے والی افواج کے کئی ٹکرے کئے ایک اسی راستے سے واپس بھیجی گئی جس راستے سے سکندراعظم نے برصغیر پر یلغار کی تھی اس کا اہم مقصد یہ بھی تھا کہ مقبوضات کی دیکھ بھال کی جاسکے اور مزید مال غنیمت حاصل کیا جاسکے اپنے ساتھ رہ جانے والی فوج کے ساتھ سکندراعظم نے دریائے جہلم سے دریائے سندھ تک کا سفر کیا پھر دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا بحیرہ عرب کے کنا رے پر آپہنچا مورخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ سکندراعظم نے اس علاقے میں ایک نیا شہر بسایا جسے سکندریہ کا نام دیا گیا یہ سکندریہ کہاں گیا؟ مورخین اس پر خاموش ہیں مگر بعض تاریخ دانو ں کا کہنا ہے کہ کراچی ہی کی بندرگاہ قدیم سکندریہ ہے بحرحال سکندراعظم نے اس مقام پر اپنی افواج کو مزید دو حصو ں میں تقسیم کیا ایک کو بحری جہازوں کے زریعے ایران کی جانب روانہ کیا دوسرے کو اپنے ساتھ لے کر براستہ مکران(گدروسیا) ایران کی جانب بڑھا اس وقت بھی یہ خطہ ریگستانی شمار کیا جاتا تھا پانی کی بے انتہا کمی اور راستے کی دشواری نے سکندراعظم اور افواج کی کمر توڑ کررکھ دی تھی اس کے باؤجود سکندراعظم نے اپنی افواج کے ہمراہ اس دشوار گزار راستے کو طے کرہی لیا مکران (گدروسیا)کے اس سفر کے دران سکندراعظم اور اس کی افواج نے گوادر کے مقام پر پڑاؤ بھی ڈالا اس کے بعد ایران کی سرحد کے اندر داخل ہو گئے
بلوچستان کا قدیم یونان کی تاریخ میں تذکرہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ساحل سمندر ہونے کے ناطے گوادر کی اہمیت سے اس خطے کے اور اس طرف سے سفر کرنے والے بخو بی واقف تھے مگر چونکہ یہ طویل صحرا اور بے آب و گیان سرزمین تھی اس لئے اپنی جانب اولالعزم بحری ملاحوں اور تاجروں اور ہنرمندوں کی توجہ زیادہ مبذول نہیں کراسکا اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کے لئے اس خطہ میں کسی بھی طرح کی سہولت مئیسر نہ تھی البتہ گوادر بہترین محل وقوع پر ہونے کے باعث نظرانداز بھی نہ ہوسکا جس کی وجہ سے کسی نہ کسی طور یہا ں پر ملاح بحری جہاز ، اور تاجر اس جگہ کو اپنے سفر کی ایک منزل قرار دینے لگے پانی کی کمیابی ایک ایسا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے کبھی بھی گودر اس طرح سے آباد نہ ہو سکا جس طرح اس خطے کے دوسرے شہر اور بندر گاہیں آباد ہو سکیں ہیں قدیم دور میں اس شہر کو تیز کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔
 قدیم مورخ مقدسی نے لکھا ہے شہرتیز کے گرد نخلستان اور شہر کے اندر بہت بڑے گودام تھے یہاں ایک بہت بڑی مسجد بھی تھی ) گوادر کا مزید تذکرہ ہمیں مشہور یوروپی مورخ مارکو پولو کی کتاب میں ملے گا جو کہ اس خطے سے گزرا تھا اس کے بعد ہمیں اس خطے کا تذکرہ مشہور مسلم سیاح ابن بطوطہ کی کتاب میں ملے گا (جن کا تعلق مراکش کے شہر طنجہ سے تھا )وہ اس خطے سے ہی گزر کر برصغیر کے مختلف علاقوں ملتان، دہلی گئے اپنے سفر کی روداد انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ درج کی ہے چونکہ یہ خطہ ہمیشہ ہی سے دشوار گزار علاقہ تصور کیا جاتا تھا اس لئے برصغیر کے مسلمان حکمرانوں اور ارد گرد کے حکمرانوں کے درمیان ایک غیر رسمی معاہدے کے تحت یہ علاقہ ہمیشہ ہی بر صغیر مسلم حکومت کی باجگزار ریاست میں تصور کیا جاتا تھا کبھی کبھار جب مرکزی حکومت اپنی نالائیقیوں کے باعث زمہ داری اٹھانے کے قابل نہ رہتی تھی تو یہ علاقہ دیگر دور دراز کے علاقوں کی مانند ریاست کے معاہدے توڑ دیتے تھے جس کے نتیجے میں یہ یا تو عارضی طور پر آزاد ہو جاتے تھے یا پڑوسی ممالک ان پر قابض ہو جاتے تھے جیسا کہ سندھ بلوچستان اور سرحد کے بیشتر علاقوں کی صورتحال کے با رے میں ہمیں تاریخ میں ملتا ہے یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ گوادر پر کسی زمانے میں پرتگیزوں نے بھی قبضہ کرلیا تھا جنہوں نے اس بندرگاہ کو لوٹنے کے بعد نظر آتش کردیا تھا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری،حکومت پاکستان کی جانب سے گوادر کی ترقی کے لئے جو منصوبہ بندی اس وقت کی جارہی ہے وہ بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا مگر شائد حالات یا کسی دوسرے سبب کی بنا پر گوادر سے اس طرح فائدہ حاصل نہیں کا جاسکا جسطرح سے اس اہم بندرگاہ سے حاصل کیا جاسکتا تھا خلیج فارس کے دہانے پر واقع گوادر کی بندرگاہ سے پاکستان کو اور پاکستانی عوام کو بھر پور فوائد حاصل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ حکومت پاکستان کی جانب سے عوام کے سرمائے کی حفاظت کے لئے بھر پور اقدامات کئے جائیں ایسے عناصر جو ہمیشہ ہی عوام کو لوٹنے کیلئے اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں ان کا سدباب کرلیا جائے مزید کے حسول کے لیئے ملاحظہ کیجیے   balochistansearch.blogspot.com 
یہ بات واضح رہے کہ ماہی گیری کے حوالے سے اور سمندر خوراک کے حوالے سے گوادر کو انتہائی اہمیت حاصل ہے دنیا بھر کے جدید ماہی گیری کے آلات سے لیس بڑے دیو ہیکل جہاز گوادر اور ساحل مکران میں آکر ماہی گیری کرتے رہے ہیں کیونکہ اس خطے میں ملنے والی مچھلیاں اور جھینگے زائقے اور وزن کے اعتبار سے دنیا بھر میں منفرد حیثیت کے حامل ہیں یہ وجہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ساحل مکران سے سالانہ 15 لاکھ ٹن کے قریب سمندری خوراک حاصل کی جاتی ہے جس سے ایک جانب عوام کو اور دوسری جانب حکومت کو ٹیکسوں کی صورت میں آمدنی ہوتی ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بندرگاہوں کو باقایدہ ترقی دی جائے
یہ بات واضح رہے کہ قلات اگر چے کہ بلوچستان کی بڑی ریاست تھی مگر اس کے علاوہ دیگر ریاستیں بھی تھیں جن کی اپنی اپنی اور علیحدہ حیثیت تھیں جیسا کہ چاغئی کے علاقے کی تھی یا مکران کی ریاست کی تھی جس کے حکمران آج بھی قلات کے مقابلے میں اپنی علیحدہ حیثیت تھی اس کی حکمرانی سنجرانی خاندان کوحاصل تھی جسے قلات کے حکمران تسلیم نہیں کرتے تھے مگر اس علاقے کے سرداروں کی حیثیت کو انگریز تسلیم کرتے تھے
                                        خطہ بلوچستان
  خطہ بلوچستان اس وقت تین حصوں میں منقسم ہے جس کی تقسیم اس طرح سے ہے
(1) کچھ حصہ اس وقت افغانستان میں ہے افغانستان کے صوبہ ہلمند اور اس کے گردو نواح میں بلوچی بولنے والے ہی آباد ہیں
(2)ایک حصہ ایران کے پاس بھی ہے جسے ایرانی بلوچستان بھی کہا جاتا ہے۔
(3)جبکہ بڑا حصہ پاکستان میں ہے جسے پاکستانی بلوچستان کہا جاتا ہے ۔
                                                                اس وقت بلوچستان کے ساحلی علاقے مکران کا حصہ ہے ہمیشہ ہی سے اس خطے کے اہم ترین مقام اور بندر گاہ رہی ہے آج کے جدید ترین گوادر کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جس قدر قدیم دور میں گوادر کے اس خطے کی تاریخ(بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس خطے سے سکندر آعظم کا لشکر بھی گزرا تھا559.BC یاتقریباساڑھے پانچسو قبل مسیح سکندراعظم یا الیگزینڈر اعظم جب اس خطے میں آیا ا س وقت یہ خطہ ایران کی ساسانی حکومت کا حصہ تھا یونانی مورخین نے اس خطے کو گدروسیا کا نام دیا ہے سے مورخین مکران کا نام دیتے ہیں  مگر انہوں نے تمام مکران کو گدروسیا کا نام دیا تھا ( یہ بات واضح رہے کہ قدیم دور میں موجودہ خضدار کو توران کا حصہ قرار دیا جاتا تھا قدیم مورخ مقدسی نے خضدار کو توران کا حصہ قرار دیا ہے یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں کے بارے میں اس طرح سے تحقیقات نہیں کی گئیں ہیں جس طرح قدیم دور میں کی گئی یا انگریزوں کے دور میں باقائدہ تحقیقات کی گئی اس لئے ماضی کی تاریخ کی کتابوں میں جن علاقوں یا شہروں کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کے بارے میں اس وقت بہت مشکل سے اور تحقیقات کرنے کے بعد ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ قدیم علاقے اس وقت کون سے ہیں یا کہاں ہیں ؟) قدیم ساسانی یا ایرانی دور میں اس وقت تمام بلوچستان، سندھ، اور پنجاب کا بیشتر حصہ ایران کا جزو تھا
اس   وقت انتظامی اعتبار سے بلوچستان میں28 اضلاع ہیں ان 28اضلاع میں منقسم بلوچستان میں اس وقت مندرجہ زیل زبانیں بولی جارہی ہیں
اردو جو قومی زبان ہے اس وقت بلوچستان میں رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے اور بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں اردو ہی کے زریعے عوام و خواص آپس میں اوردیگر اقوام سے رابطہ قائم کررہے ہیں
بلوچستان میں اس وقت اردو ( جو تمام بلوچستان میں رابطہ کی مسلمہ زبان ہے) کے علاوہ بلوچی ، پشتو، براہوی،لاسی، کھیترانی، سرائکی،بولی جاتی ہیں یہ صورتحال اقوام کی بھی ہیں بلوچستان میں بلوچوں کے علاوہ پشتون سابقہ ریاست لسبیلہ کے لاسی ( جن کی زبان لاسی ہے) براہوئی ،کھیترانی ( ان کو اگر چہ بلوچ شمار کرانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ان کی زبان کھیترانی ہے جو بلوچی اور دیگر زبانوں سے بہت مختلف ہے بلوچستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تفصیلات کچھ اس طرح سے ہے
(1) بلوچی یہ بلوچستا ن میں ضلع کوئیٹہ، ضلع سبی، ضلع بارکھان،ضلع خضدار ضلع ڈیرہ بگٹی ، ضلع مکران،ضلع کوہلو،ضلع گوادر،ضلع کچھ، ضلع پنجگور ،ضلع جھل مگسی ، ضلع جعفرآباد ضلع، مستونگ ،جعفرآباد اور بگٹی،مری، جمالی اور دیگر قبائیل کی زبان ہے پاکستان کے بلوچ قبائل میں بلوچی کا مشرقی لہجہ بولا جاتا ہے مگر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مختلف لب و لہجے کے ساتھ بولی جاتی ہے مثلابگٹی اور مری ، قبائل کی بلوچی دیگر قبائل میں بولی جانے والی بلوچی سے بالکل ہی مختلف لب و لہجے میں بولی جاتی ہے بلوچی کا ایک مختلف لہجہ مکران میں بولا جاتا ہے مگر مجموعی طور پربلوچستان میں بولی جانے والی بلوچی مشرقی بلوچی کہلاتی ہے جس کے گوادر۔ پنجگور۔خضدار۔تربت ۔کوئٹہ ڈیرہ بگٹی وہ کو ہلو۔ کے لہجے الگ الگ ہیں
(2) پشتو۔ بلوچستان میں بولی جانے والی پشتو صوبہ سرحد و افغانستان میں بولی جانے والی پشتو سے بہت مختلف ہے یہ پشتون قبائل میں بولی جاتی ہے جن میں موسیٰ خیل اچکزئی،مندوخیل، کاکڑ، پانڑی ،کانسی ،اور درانی قبائل کی مختلف شاخیں شامل ہیں یہ سبی ،کوئٹہ،چمن ، ژوب، لورالائی، چاغئی،موسیٰ خیل قلعہ سیف اللہ ۔ قلعہ عبداللہ۔ اور دیگر علاقوں میں بولی جاتی ہے پشتو بولنے والے ڈییرہ بگٹی اور کوہلو سمیت تمام صوبے میں پائے جاتے ہیں
(3)بروہوی۔ عام بلوچی بروہوئی زبان کو کرگالی کہتے ہیں یہ زیادہ تر سابقہ ریاست قلات کے مرکز اور اس کے ارد گرد بولی جاتی ہے براہوئی قبائلبلوچستان کے دو خطوں سراوان اورجھالاوان میں رہائیش پذیر ہیں بلوچستان کی سابق ریاست قلات کے حکمران بھی اصل میں بروہی تھے اسی لئے اس علاقے میں براہوی زیادہ بولی جاتی ہے مینگل ، بزنجو،رئیسانی، لہڑی، شاہوانی،محمدشہی۔بنگلزئی۔میروانی،کرد،قلندرانی،گرگناڑی،زہری،ساجدی قبائل اور دیگر قبائل میں بروہی زیادہ زریعہ گفتگو ہے کوئیٹہ،اور دیگر علاقوں میں دیگر زبانوں کے ساتھ بروہوی زبان بھی بولی جاتی ہے۔(4)لاسی۔ یہ سابق ریاست لسبیلہ میں بولی جاتی ہے بنیادی طور پر یہ سندھی اور بلوچی سے زیادہ تر متاثر ہے اور بلوچی سے مختلف ہے ۔
(5)سرائیکی۔ بلوچستان میں سرائکی کا لہجہ بھی پنجاب سے مختلف ہے یہ زیادہ تر پنجاب اور سندھ کی سرحدوں میں بسنے والے علاقوں میں بولی جاتی ہے
یاکستان کے بلوچستان کے بلوچ عوام کو بلوچ عالم اور تاریخ دان ایک دوسری بنیاد پر بھی تقسیم کرتے ہیں جو اس طرح سے ہے
 (1)سلیمانی بلوچ
(2)مکرانی بلوچ
یہ دونوں گروہ الگ الگ حصوں میں آباد ہیں ان کو براہوئیوں کی ایک خاص آبادی انہیں ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے براہویوں کی یہ آبادی قلات کے علاقے کے ارد گرد آبادہے آیئے اس اعتبار سے بھی بلوچستان کاجائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں
سلیمانی بلوچوں میں اب بھی قبائلی نظام موجود ہے ان کا علاقہ کوہ سلیمان کے جنوب میں 31اکتیسوں عرض البلد سے شروع ہو کر کچھی کے میدان تک پھیلا ہوا ہے بنیادی طور پر یہ بھی کئی حصوں میں منقسم ہیں جس کا تذکرہ اوپر کیا جاچکا ہے اور آگے چل کر کیا جائے گا ۔ مکرانی بلوچبلوچوں کی یہ تقسم ان کے سماجی اور سیاسی حالات زندگی پر بھی اثر ڈالتی ہے جیسا کہ مکرانی بلوچوں کی اکثریت سرداری نظام کے خلاف ہے ان کے سرداری نظام اس طرح سے قائم نہیں ہے جس طرح بگٹی ، مری اور دیگر قبائل میں یہ سرداری نظام قائم ہے یہ ہی وجہ ہے کہ بی ایس او ، بلوچ نیشنل موومنٹ مرحوم غوث بخش رئیسانی کے اثرات اسی علاقے میں زیادہ تھے مگر ان کی سیاست کا بنیادی محر ک اور جدوجہدغیر سرداری نطام کے تحت حاصل ہونے والی سہو لیتیں ہیں اس لئے مکرانی بلوچوں کا تعلق مکرا ن سے ہے اگرچے ان میں بعض ایسے قبائل کو بھی بطور بلوچ شامل کیاجاتا ہے جو غیر بلوچ ہیں مثلا سابق ریاست خاران کا حکمران خاندان نوشیروانی خاندان جو اپنے آپ کو قدیم ایرانی بادشاہ نوشیروان کی اولاد بتاتا ہے یا مکران کاحکمران خاندان گچگی قبیلہ جو لاہور کے نواح میں بسنے والا ہندوراجپوت قبیلہ تھا لاہور سے ہجرت کرنے کے بعد مکران کی ایک وادی گچک میں مقیم ہونے کے سبب اس قبیلے کو گچکی کہا جانے لگا بعد میں اس قبیلے کے افراد نے پہلے زکری مذہب پھر اسلام قبول کرلیا مگر اس وقت ان دونوں اور بہت سے دیگر غیر بلوچ قبائل کو بلوچ قبائل کہا جاتا ہے مکران کے دیگر بڑے قبائل بلیدھی، غزانی، رخشانی،اور عمرانی ہیں بلوچستا ن کی لسانی اور سیاسی بنیادوں پر اس تقسیم کے اثرات ہر ہر پہلو پر پڑتے رہے ہیں اور اس وقت بھی پڑرہے ہیں اور سیاست پر سب سے زیادہ پڑ رہے ہیں یہہی وجہ ہے کہ اس وقت بلوچستان کے بڑے بڑے بلوچ قبائل شدیدقسیم کی تقسیم سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ سے ایک طرح سے ان میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے جیسا کہ مری ، مینگل، اور بگٹی قبائل کی خانہ جنگی کا معاملہ ہے
                                             آبادی۔

بلوچستان کو آبادی کے اعتبار سے کئی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے
 یہ تقسیم لسانیت اور قبائل کی بنیاد پر ہے جن میں بلوچ ، پشتون ، بروہوی ،لاسی،جاٹ ، ہندو اوردیگر اقوام شامل ہیں سب سے بڑی لسانی اکائی بلوچ ہیں بلوچستان کے علاوہ بلوچ پاکستان کے دیگر صوبوں پنجاب سندھ اور صوبہ سرحد میں بھی آباد ہیں پاکستان کے علاوہ بلوچ پڑوسی ملک ایران افغانستان ، ترکمانستان ، خلیج کی ریا ستوں مسقط اومان ، متحدہ عرب امارات ، یمن میں بھی آباد ہیں بلوچوں کی ایک قلیل تعداد بھارت میں صوبہ گجرات اور صوبہ یو پی اور دہلی کے نواح میں بھی آباد ہیں
یہ ان بلوچوں کی اولاد ہیں جو کہ بلوچوں کے درمیان ہونے والی سب سے بڑی خانہ جنگی کے نتیجے میں بلوچستان چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے تھے ان میں سے کچھ میر نصیر خان نوری کے ساتھ اس وقت گئے جب شاہ ولی اللہ دہلوی نے افغانستان کے حکمران احمد شاہ ابدالی کو مدد کے لئے بلوایا احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان آکر مرہٹوں کو شکست فاش دی احمد شاہ ابدالی کے ساتھ آنے والے میرنصیر خان نوری کے کچھ ساتھی اس وقت دہلی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں آباد ہوگئے اس آباد کاری کے نتیجے میں ان بلوچوں نے مقامی زبانیں اردو ، گجراتی بولنا شروع کردیں اور مقامی رہن سہن بھی اپنا لئے جسٹس (ر) میر خدا بخش مری بجارانی اپنی کتاب سرچ لائٹ آن بلوچس اینڈ بلوچستان SEARCHLIGHTS ON BALOCHES AND BALOCHISTAN کے صفحہ نمبر 16 پر بلوچوں کی مردم شماری کے حوالے سے لکھتے ہیں دہلی،گجرات،گڑگاواں،ہوشیارپور،حصار،امرتسر،امبالہ،فیروز پور، کرنال ،لدھیانہ،پٹیالہ ،روہتک، کانگڑہ شاہ پور میں بلوچوں کی بڑی تعداد مقیم تھی قیام پاکستان کے بعد ان بلوچوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان آگئی جو کراچی سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں شکار پور ،جیکب آباد،پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور دیگر جگہوں پرآباد ہوئی ان بلوچوں کو مقامی بلوچوں نے بعض مقامات پر اپنا بھی لیا مگر بعض مقامات پر ان کو بلوچ تسلیم کرنے سے اس لئے انکارکیا گیا کہ وہ افراد بلوچی زبان نہیں بولتے تھے اب ان کی زبان اردو ہو چکی تھی پاکستان آنے کے بعد ان بلوچوں کی اکثریت نے بلوچی اور دیگر زبانیں دوبارہ سے اپنائی ہیں
بلوچوں کی تاریخ کے حوالے سے جائیزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مورخین نے اورخود بلوچوں کے مختلف عالموں نے بلوچوں کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا تھا
(1)۔رند۔ ان کی اولاد میں ،بگٹی، لغاری ،مزاری ،گشکوری، قیصرانی ،لنڈ،مستوئی،اور دیگر قبائل شامل ہیں
(2)۔لاشار۔ ان کی اولاد میں مگسی،جتکانی،لشاری،بھوتانی جستکانی، شامل ہیں
(3)۔ہوت ۔ کھوسہ،عمرانی،حملانی،ان کی اولاد میں دیگر قبائل شامل ہیں
بنیادی طورپر پاکستان ایران ،افغانستان، اور خلیج کی ریاستوں میں بسنے والے بلوچ قبائل ان ہی تین حصوں میں منقسم ہیں بعد میں ان کی بہت سی زیلی تقسیم بھی ہوئی ہے
    

           بلوچستان نام اور اس خطے کی جغرافیائی حدود
جی پی اسٹرینج  اپنی کتاب جغرافیہ خلافت مشرقی میں صفحہ نمبر484 پرلکھتے ہیں
                                          سجستان کی حدود وہی تھیں جو آج کل بلوچستان کے صحرا کے ہیں زمانہ وسطیٰ میں یہ مکران کا حصہ سمجھا جاتا تھا آگے صفحہ نمبر 499 پر لکھتے ہیں کہ ہندوستان کی سرحد کے قریب عرب جغرافیہ دانوں نے دو علاقوں کا حال لکھا ہے یعنی طوران جس کا دارلحکومت قصدار( موجود ہ خضدار ) تھا اور بد ھ جو طوران کے شمال میں تھا اس وقت بدھ زیر بحث نہیں ہے ہم اس طوران کو زیر بحث لاتے ہیں برصغیر کی تاریخ میں ہمیشہ ہی طوران کو اہمیت حاصل رہی ہے مگر یہ طوران کہاں ہے آج کل کے تاریخ دان اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں؟ جی لی اسٹرینج نے اپنی کتاب جغرافیہ خلافت مشرقی میں اس سوال کا جواب دیا ہے اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ بلوچستان کو مسلم تاریخ میں طوران کے نام سے پکارا جاتا تھا                                    انگریزوں نے اس علاقے کانام اپنی سہولت کے لئے بلوچستان رکھا تھا جو انگریزوں نے ریاست قلات سے سبی اور افغانستان سے چمن ، پشین ،ژوب اپنی تحویل میں لے لیا تھا اپنی سہولت کے لئے اورانتظامی اعتبار سے اس علاقے کا ایک نام بلوچستان رکھا گیا تھا جبکہ دیگر علاقوں کو ان کے ناموں مثلا قلات کی ریاست ، لسبیلہ کی ریاست ،یا خاران کی ریاست ، ہی کے نام سے پکارا جاتا تھا اس طرح بلوچستان انگریزوں کے دور میں دو حصوں میں منقسم تھا ایک انگریزی یا برٹش بلوچستان دوسرا ریاستی بلوچستان موجودہ تاریخ دان اس خطے کی تاریخ کو کچھ اس طرح ملا جلا کر پیش کرتے ہیں کہ علیحدہ علیحدہ علاقوں کے حوالے سے اس خطہ کی تاریخ کو ترتیب دینا بہت مشکل ہوجاتا ہے مگر برٹش اور ریاستی بلوچستان کو اس کی اصل تقسیم کے مطابق دیکھا اور پرکھا جائے تو قیام پاکستان سے قبل موجودہ بلوچستان مندرجہ زیل حصوں میں تقسیم تھا ۔                                       برٹش بلوچستان جس میں سبی ،کوئیٹہ، اور افغانستان سے حاصل شدہ علاقے جن میں پشین، چمن ،سبی اور دیگر علاقے شامل تھے کوئیٹہ میں انگریزوں کی چھاؤنی تھی
                       ریاست قلات 1540عیسوی میں قلات پر موجودہ خان آف قلات کے آباؤاجداد احمد زئی قبیلے نے لشکر کشی کرکے میرواڑیوں کے قبضے سے قلات چھین لیا ( اس علاقے کومشہور تاریخ دان مقدسی نے توران کا نام دیا ہے جو بعد میں قلات کے نام سے مشہور ہوا) اور یوں قلات پر بلوچوں کی حکمرانی قائم ہوگئی جو قیام پاکستان تک قائم رہی
                                ریاست خارا ن۔ یہ مکران سے ملحق اور اس کے بعض علاقوں پر قائم تھی گواد ر جو کہ دراصل مکران یا خاران کا اہم ترین حصہ ہے نوشیروانی قبیلے کے تسلط میں رہا جو اپنے آپ کو ایرانی بادشاہ نوشیروان کی اولاد میں سے بتاتا ہے ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار نے1734 ؁ عیسوی میں مکران پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں خاران پر ایرانی حکومت کا قبضہ ہوگیا مگر جلد ہی مکران کے نوشیروانی حکمران نے نادر شاہ افشار کے ساتھ صلح کرلی جس کے بعد امیر پردل خان نوشیروانی اور ان کی اولاد بدستور مکران یا خاران پر حکمران ہو گئی خاران کے نوشیروانی حکمرانوں نے کبھی بھی قلات کے احمد زئی حکمرانوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا ہمیشہ ہی قلات اور خاران کے حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری رہی دونوں ریاستوں کے درمیان 1939 میں اس وقت آخری باقائدہ جنگ ہوئی جب قلات کے احمد زئی حکمرانوں نے خاران پر فوج کشی کی جو انگریز کمشنروں کی وجہ سے جلد ہی اختتام پذیر ہوئی خاران کو گر چہ قلات کے حکران اپنی زیل ریاست کے طور پر شمار کرتے تھے مگر ان کی اس بالا دستی کو کبھی بھی خاران اور لسبیلہ کے نوابوں اورمکران کے سرداروں نے تسلیم نہیں کی مگر قیام پاکستان کے بعد لسبیلہ اور خاران کے حکمرانوں نے قلات سے قبل ہی پاکستان میں شمولیت کا اعلان کردیا خاران کے حکمران نے مئی 1947 کو خاران میں جلسہ کیا اس جلسہ میں خارا ن کے تمام عوام نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا
ریاست لسبیلہ جس کے حکمران جام کے نام سے موسوم ہیں ریاست لسبیلہ کی حکمرای عالیانی خاندان کے پاس ہے موجودہ جام یوسف جو وزیر اعلیٰ بلوچستان ہیں نویں جام ہیں
گوا در موجودہ لاہور (پنجاب )سے راجپوتوں کا ایک قبیلہ پناہ لینے کے لئے گوادر آیا یہ قبیلہ اس وقت ہندو تھا اس قبیلے نے پنجگورکے قریب ایک وادی گچک میں قیام کیا جس کی وجہ سے اس قبیلے کا نام گچکی پڑ گیا بعد میں اس قبیلے کے افراد نے اسلام قبول کرلیا جس کے بعد اس خطے میں گچکی قبیلے کو اقتدار حاصل ہوگیااٹھارہویں صدی میں مکران پر گچکی قبیلے کا اقتدار قائم ہوتا چلا گیا مگر اسی دوران قلات کے حکمرانوں نے بھی مکران کو اپنے اقتدار میں لانے کی کوشش کی میر نصیر خان نوری اور ان کے بعد قلات کے بہت سے حکمرانوں نے مکران اور گوادر پر حملے کئے مسقط کا ایک شہزادہ ناراض ہو کر گوادر میں مقیم ہوگیا اس کو گچکی سرداروں نے گزر اوقات کے لئے گوادر کی بندرگاہ دی کہ وہاں اپنی رہائش رکھے اور گوادر ہی کے محصولات سے آمدنی حاصل کرے جس کے بعد گوادر مستقل طور پر سلطنت مسقط کا حصہ بن گیا گوادر پر قیام پاکستان کے بعد بھی مسقط کے حکمرانوں ہی کا قبضہ رہا سکندر میرزا کے دور حکومت میں پاکستان نے باقائدہ مسقط سے گوادر کو خریدا جس کی قیمت مسقط کی حکومت کو ادا کی گئی یوں گوادر پاکستان کا وہ واحد حصہ بنا جس کو سو فیصد حکومت پاکستان نے خریدا

                                     Daira Bugtiڈیرہ بگٹی
بلوچستان کے انتہائی مشرق میں واقع ضلع ڈیرہ بگٹی کی سرحدیں ایک جانب سندھ کے اضلاع شکار پور سے ملتی ہیں تو وہیں پے اس کی سرحدیں پنجاب کے اضلاع ڈیرہ غازی خان سے بھی ملتی ہیں
بگٹی قبیلے کا مرکزضلع ڈیرہ بگٹی میں ہے ۔ ڈیرہ بگٹی بلوچستان کے ان دو اضلاع میں سے ایک ہے جہاں صرف ایک ہی قبیلے کی اکثریت ہے( دوسرا ضلع کوہلو ڈسٹرکٹ ہے جہاں مری قبیلے کی اکثریت ہے ) قبیلے کا بنیادی تعلق رند بلوچوں سے ہے ۔
بگٹی قبیلے کی چھہ بڑی شاخیں اور 44 پارے ہیں
 ان میں را ہیجہ سردار خیل ہے اور بگٹی قبیلے کا سردار اسی پاڑے میں سے ہوتا ہے
 اس کے علاوہ دیگر شاخوں میں ،
 نوتھانی،
مسوری
 ریاری (شمبانی)
 کلپر او
ر پھونگ
شامل ہیں ان چھ پارں کے44 شاخیں زرکانی ، پیروزئی، نوسانی، ببرک زئی کرمان زئی قاسمانی، مندوانی،سہگانی، نوسانی،شلوانی،بگرانی، فیروزئی، رامزئی ہیں۔
ضلع ڈیرہ بگٹی کا کل رقبہ 18528 ہے اس وقت ڈیرہ بگٹی کی آبادی اوربگٹی قبیلے کی تعداد1 لاکھ81 ہزار ہے ہے

 جن میں سے چار ساڑھے چار ہزار ہندو ہیں
جب کے ضلع ڈیرہ بگٹی تین تحصیلوں میں منقسم ہے  
ڈیرہ بگٹی
 پھیلا وغ ،
 سوئی
ڈیرہ بگٹی جو کہ ضلع ڈیرہ بگٹی کا مرکز ہے ڈیرہ بگٹی کا کنٹرول زیادہ تر راہیجہ شاخ کے سربراہ مرحوم نواب اکبر بگٹی ہی کے پاس رہا ہے ڈیرہ بگٹی کے مرکز اور شہر ڈیرہ بگٹی میں راہیجہ ہی کا کنٹرول ہے
جبکہ سوئی شہر کا علاقہ کلپربگٹیوں کا مرکز ہے اس وقت سوئی میں چھاؤنی قائم ہے
تحصیل بیکڑ اور اس کے ارد گرد کا علاقہ مسوری شاخ کا مرکز ہے بیکڑ میں مسوری قبیلے کے سربراہ اور بگٹی قبیلے
کے چیف سردار علی محمد مسوری بگٹی( جن کا مراتب کے اعتبار سے بگٹی قبیلے میں دوسرا نمبر ہے ) مقیم ہیں
مزید معلومات کے لیئے دیکھیے