صوبہ پنجاب
پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں رہنے والے لوگ پنجابی کہلاتے ہیں۔ پنجاب جنوب کی طرف سندھ، مغرب کی طرف سرحد اور بلوچستان،شمال کی طرف کشمیر اور اسلام آباد اور مشرق کی طرف ہندوستانی پنجاب اور راجھستان سے ملتا ہے۔ پنجاب میں بولی جانے والی زبان بھی پنجابی کہلاتی ہے۔ پنجابی کے علاوہ وہاں اردو اور سرائیکی بھی بولی جاتی ہے۔ پنجاب کا دارالحکومت لاہور ہے۔ پنجاب فارسى زبان كے دو لفظوں پنج بمعنى پانچ(5) اور آب بمعنى پانى سے مل كر بنا ہےـ ان درياؤں كے نام ہيں
لاہور (Lahore) صوبہ پنجاب پاکستان کا دارالحکومت اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے۔ اسے پاکستان کا دل بھی کہتے ہیں۔ یہ شہر دریاۓ راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔
شاہی قلعہ، شالامار باغ، بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں مغل دور کی یادگار ہیں۔ سکھ اور برطانوی دور کی بھی تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔
ساتویں صدی عیسوی کے اواخر میں لاھور ایک راجپوت چوہان بادشاہ کا پایہٗ تخت تھا۔ فرشتہ کے مطابق سنہ 682 عیسوی میں کرمان اور پشاور کےمسلم پٹھان قبا ئل راجہ پر حملہ آور ہوئے۔ پانچ ماہ تک لڑائی جاری رہی اور بالآخر سالٹ رینج کے گکھڑ راجپوتوں کے تعاون سے وہ راجہ سے اس کے کچھ علاقے چھیننے میں کامیاب ہو گئے۔ نویں صدی عیسوی میں لاہور کے ہندو راجپوت چتوڑ کے دفاع کے لئے مقامی فوجوں کی مدد کو پہنچے۔دسویں صدی عیسوی میں خراسان کا صوبہ دارسبکتگین اس پر حملہ آور ہوا۔ لاھور کا راجہ جے پال جس کی سلطنت سرہند سے لمگھان تک اور کشمیر سے ملتان تک وسیع تھی مقابلہ کے لئے آیا۔ایک بھٹی راجہ کے مشورے پر راجہ جے پال نے پٹھانوں کے ساتھ اتحاد کر لیا اور اس طرح وہ حملہ آور فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ غزنی کے تخت پر قابض ہونے کے بعد سبکتگین ایک دفعہ پھر حملہ آور ہوا۔ لمگھان کے قریب گھمسان کا رن پڑا اور راجہ جے پال ملغوب ہو کر امن کا طالب ہوا۔ طے یہ پایا کہ راجہ جے پال تاوان جنگ کی ادائیگی کرے گا اور سلطان نے اس مقصد کے لئےہرکارے راجہ کے ہمرکاب کئے۔ لاھور پہنچ کر راجہ نے معاہدے سے انحراف کیا اور سبکتگین کے ہرکاروں کو مقید کر دیا۔ اس اطلاع پر سلطان غیض وغضب میں دوبارہ لاہور پر حملہ آور ہوا۔ ایک دفعہ پھر میدانِ کارزار گرم ہوا اور ایک دفعہ پھر جے پال کو شکست ہوئی اور دریائے سندھ سے پرے کا علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ دوسری دفعہ مسلسل شکست پر دلبرداشتہ ہو کر راجہ جے پال نے لاھور کے باہر خود سوزی کر لی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کا مقصد صرف راجہ کو سبق سکھانا تھا کیونکہ اس نے مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا اور 1008عیسوی میں جب سبکتگین کا بیٹا محمود ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو جے پال کا بیٹا آنند پال ایک لشکر جرار لے کر پشاور کے قریب مقابلہ کے لئے آیا۔ محمود کی فوج نے آتش گیر مادے کی گولہ باری کی جس سے آنند پال کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ نتیجتاًکچھ فوج بھاگ نکلی اور باقی کام آئی۔ اس شکست کے باوجود لاہور بدستور محفوظ رہا۔ آنند پال کے بعد اس کا بیٹا جے پال تخت نشین ہوا اور لاہور پر اس خاندان کی عملداری 1022 تک برقرار رہی حتٖی کہ محمود اچانک کشمیر سے ہوتا ہوا لاہور پر حملہ آور ہوا۔ جے پال اور اس کا خاندان اجمیر پناہ گزین ہوا۔ اس شکست کے بعد لاہور غزنوی سلطنت کا حصہ بنا اور پھر کبھی بھی کسی ہندو سلطنت کا حصہ نہیں رہا۔محمود کے پوتے مودود کے عہدِ حکومت میں راجپوتوں نے شہر کو واپس لینے کے لئے چڑھائی کی مگر چھ ماہ کے محاصرے کے بعد ناکام واپس ہوئے۔ لاھور پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے اپنے پسندیدہ غلام ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا جِس نےشہرکے گرد دیوار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قلعہ لاھور کی بھی بنیاد رکھی۔ ملک ایاز کا مزار آج بھی بیرون ٹکسالی دروازہ لاہور کے پہلے مسلمان حکمران کے مزار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ غزنوی حکمرانوں کے ابتدئی آٹھ حکمرانوں کے دور میں لاھور کا انتظام صوبہ داروں کے ذریعہ چلایا جاتا تھا تاہم مسعود ثانی کے دور میں(۱۱۱۴۔ ۱۰۹۸) دارالحکومت عارضی طور پر لاھور منتقل کر دیا گیا۔اس کے بعد غزنوی خاندان کے بارہویں تاجدار خسرو کے دور میں لاہور ایک دفعہ پھر پایہِ تخت بنا دیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1186میں غزنوی خاندان کے زوال تک برقرار رہی۔ غزنوی خاندان کے زوال کے بعد غوری خاندان اور خاندانِ غلاماں کے دور میں لاھور سلطنت کے خلاف سازشوں کا مرکز رہا۔ درحقیقت لاہور ہمیشہ پٹھانوں کے مقابلہ میں مغل حکمرانوں کی حمایت کرتا رہا۔1241 عیسوی میں چنگیز خان کی فوجوں نے سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کی فوج کو راوی کے کنارے شکست دی اور حضرت امیر خسرو کو گرفتار کیا۔ اس فتح کے بعد چنگیز خان کی فوج نے لاھور کو تاراج کر دیا۔
خلجی اور تغلق شاہوں کے ادوار میں لاھور کو کوئی قابلِ ذکر اہمیت حاصل نہ تھی اور ایک دفعہ گکھڑ راجپوتوں نے اسے لوٹا۔ 1397 میں امیر تیمور برصغیر پر حملہ آور ہوا اور اس کے لشکر کی ایک ٹکڑی نے لاہور فتح کیا۔ تاہم اپنے پیشرو کے برعکس امیر تیمور نے لاہور کو تاراج کرنے سے اجتناب کیا اور ایک افغان سردار خضر خان کو لاھور کا صوبہ دار مقرر کیا۔اس کے بعد سے لاھور کی حکومت کبھی حکمران خاندان اور کبھی گکحڑ راجپوتوں کے ہاتھ رہی یہاں تک کہ 1436 میں بہلول خان لودھی نے اسے فتح کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بہلول خان لودھی کے پوتے ابراہیم لودھی کے دورِ حکومت میں لاھور کے افغان صوبہ دار دولت خان لودھی نے علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنی مدد کے لئےمغل شہزادے بابر کو پکارا۔
اسلامی علوم کی درسگاہیں و جامعات بھی موجود ہیں مثلاً:
:
دریائے سندھدریائے جہلمدریائے چنابدریائے راویدریائے ستلجتاریخی اعتبار سے پنجاب کے دوحصے ہیں ایک یعنی مشرقی حصہ جو کہ بھارت میں ہے اور ایک مغربی حصہ جو پاکستان میں ہے۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جبکہ پاکستان کے 48% لوگ پنجابی زبان سمجھتے اور بولتے بھی ہیں۔
تہوارعید الفطر، عید الاضحٰی، شبِ برات اور عید میلاد النبی پنجاب کے علاوہ پورے پاکستان میں خاص تہوار ہیں اور پورے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ ان تہواروں کے علاوہ رمضان کا پورا مہینہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مگر بسنت ایک ایسا تہوار ہے جو پنجاب سے منسلک ہے۔ یہ تہوار بہار کے موسم کو خوش آمدید کہنے کا ایک خاص طریقہ ہے۔ جس میں لوگ پتنگ اڑا کر اور پنجاب کے خاص کھانے بنا کر اور کھا کراس تہوار کو مناتے ہیں۔ مگر بہت سے لوگ بسنت منانے کے خلاف ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے کئی معصوم لوگوں اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
موسمفروری سے پہلے پنجاب میں بہت سردی ہوتی ہے اور پھر اس مہینے سے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے اور موسم خوشگوار ہونے لگتا ہے۔ فروری سے اپریل تک بہار کا موسم رہتا ہے اور پھر گرمی شروع ہونے لگتی ہے۔
گرمی کا موسم مئی سے شروع ہوتا ہے تو اکتوبر کے آخر تک رہتا ہے۔ جون اور جولائی سب سے زیادہ گرم مہینے ہیں۔ سرکاری معلومات کے مطابق پنجاب میں C° 46 تک درجہ حرارت ہوا ہے مگر اخبارات کی معلومات کے مطابق پنجاب میںC°51 تک درجہ حرارت پہنچا ہے۔ سب سے زیادہ گرمی کا ریکارڈ ملتان میں جون کے مہینے میں قلمبند کیا گیا جب عطارد کا درجہ حرارت 54 °C سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ اگست میں گرمی کا زور تھوڑا ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اکتوبر کے بعد پنجاب میں شدید سردی کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔
دریائے سندھدریائے جہلمدریائے چنابدریائے راویدریائے ستلجتاریخی اعتبار سے پنجاب کے دوحصے ہیں ایک یعنی مشرقی حصہ جو کہ بھارت میں ہے اور ایک مغربی حصہ جو پاکستان میں ہے۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جبکہ پاکستان کے 48% لوگ پنجابی زبان سمجھتے اور بولتے بھی ہیں۔
تہوارعید الفطر، عید الاضحٰی، شبِ برات اور عید میلاد النبی پنجاب کے علاوہ پورے پاکستان میں خاص تہوار ہیں اور پورے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ ان تہواروں کے علاوہ رمضان کا پورا مہینہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مگر بسنت ایک ایسا تہوار ہے جو پنجاب سے منسلک ہے۔ یہ تہوار بہار کے موسم کو خوش آمدید کہنے کا ایک خاص طریقہ ہے۔ جس میں لوگ پتنگ اڑا کر اور پنجاب کے خاص کھانے بنا کر اور کھا کراس تہوار کو مناتے ہیں۔ مگر بہت سے لوگ بسنت منانے کے خلاف ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے کئی معصوم لوگوں اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
موسمفروری سے پہلے پنجاب میں بہت سردی ہوتی ہے اور پھر اس مہینے سے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے اور موسم خوشگوار ہونے لگتا ہے۔ فروری سے اپریل تک بہار کا موسم رہتا ہے اور پھر گرمی شروع ہونے لگتی ہے۔
گرمی کا موسم مئی سے شروع ہوتا ہے تو اکتوبر کے آخر تک رہتا ہے۔ جون اور جولائی سب سے زیادہ گرم مہینے ہیں۔ سرکاری معلومات کے مطابق پنجاب میں C° 46 تک درجہ حرارت ہوا ہے مگر اخبارات کی معلومات کے مطابق پنجاب میںC°51 تک درجہ حرارت پہنچا ہے۔ سب سے زیادہ گرمی کا ریکارڈ ملتان میں جون کے مہینے میں قلمبند کیا گیا جب عطارد کا درجہ حرارت 54 °C سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ اگست میں گرمی کا زور تھوڑا ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اکتوبر کے بعد پنجاب میں شدید سردی کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور
لاھور | |
عمومی معلومات | |
صوبہ | پنجاب |
رقبہ | 2,014 مربع کلومیٹر |
کالنگ کوڈ | 042 |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
حکومت | |
ناظم | میاں عامر محمود |
یونين کونسلوں | 150 |
علامت | |
شاہی قلعہ، شالامار باغ، بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں مغل دور کی یادگار ہیں۔ سکھ اور برطانوی دور کی بھی تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔
تاریخ
لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے لکھا جو ہندوستان جاتے ھوئے لاہور سے 630 عیسوی میں گزرا ۔ اس شہر کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے لیکن اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے "لوہو" نے یہ بستی آباد کی تھی۔ قدیم ہندو "پرانوں" میں لاھور کا نام "لوہ پور" یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔ راجپوت دستاویزات میں اسے "لوہ کوٹ" یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح "الادریسی" نے اسے "لہاور" کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ اوائل تاریخ سے ہی یہ شہر اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت اس کا دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہگزر رہا ہے، واقع ہونا اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔"فتح البلادن" میں درج سنہ 664 عیسوی کے واقعات میں لاھور کا ذکر ملتا ہے جس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا ہے۔ساتویں صدی عیسوی کے اواخر میں لاھور ایک راجپوت چوہان بادشاہ کا پایہٗ تخت تھا۔ فرشتہ کے مطابق سنہ 682 عیسوی میں کرمان اور پشاور کےمسلم پٹھان قبا ئل راجہ پر حملہ آور ہوئے۔ پانچ ماہ تک لڑائی جاری رہی اور بالآخر سالٹ رینج کے گکھڑ راجپوتوں کے تعاون سے وہ راجہ سے اس کے کچھ علاقے چھیننے میں کامیاب ہو گئے۔ نویں صدی عیسوی میں لاہور کے ہندو راجپوت چتوڑ کے دفاع کے لئے مقامی فوجوں کی مدد کو پہنچے۔دسویں صدی عیسوی میں خراسان کا صوبہ دارسبکتگین اس پر حملہ آور ہوا۔ لاھور کا راجہ جے پال جس کی سلطنت سرہند سے لمگھان تک اور کشمیر سے ملتان تک وسیع تھی مقابلہ کے لئے آیا۔ایک بھٹی راجہ کے مشورے پر راجہ جے پال نے پٹھانوں کے ساتھ اتحاد کر لیا اور اس طرح وہ حملہ آور فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ غزنی کے تخت پر قابض ہونے کے بعد سبکتگین ایک دفعہ پھر حملہ آور ہوا۔ لمگھان کے قریب گھمسان کا رن پڑا اور راجہ جے پال ملغوب ہو کر امن کا طالب ہوا۔ طے یہ پایا کہ راجہ جے پال تاوان جنگ کی ادائیگی کرے گا اور سلطان نے اس مقصد کے لئےہرکارے راجہ کے ہمرکاب کئے۔ لاھور پہنچ کر راجہ نے معاہدے سے انحراف کیا اور سبکتگین کے ہرکاروں کو مقید کر دیا۔ اس اطلاع پر سلطان غیض وغضب میں دوبارہ لاہور پر حملہ آور ہوا۔ ایک دفعہ پھر میدانِ کارزار گرم ہوا اور ایک دفعہ پھر جے پال کو شکست ہوئی اور دریائے سندھ سے پرے کا علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ دوسری دفعہ مسلسل شکست پر دلبرداشتہ ہو کر راجہ جے پال نے لاھور کے باہر خود سوزی کر لی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کا مقصد صرف راجہ کو سبق سکھانا تھا کیونکہ اس نے مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا اور 1008عیسوی میں جب سبکتگین کا بیٹا محمود ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو جے پال کا بیٹا آنند پال ایک لشکر جرار لے کر پشاور کے قریب مقابلہ کے لئے آیا۔ محمود کی فوج نے آتش گیر مادے کی گولہ باری کی جس سے آنند پال کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ نتیجتاًکچھ فوج بھاگ نکلی اور باقی کام آئی۔ اس شکست کے باوجود لاہور بدستور محفوظ رہا۔ آنند پال کے بعد اس کا بیٹا جے پال تخت نشین ہوا اور لاہور پر اس خاندان کی عملداری 1022 تک برقرار رہی حتٖی کہ محمود اچانک کشمیر سے ہوتا ہوا لاہور پر حملہ آور ہوا۔ جے پال اور اس کا خاندان اجمیر پناہ گزین ہوا۔ اس شکست کے بعد لاہور غزنوی سلطنت کا حصہ بنا اور پھر کبھی بھی کسی ہندو سلطنت کا حصہ نہیں رہا۔محمود کے پوتے مودود کے عہدِ حکومت میں راجپوتوں نے شہر کو واپس لینے کے لئے چڑھائی کی مگر چھ ماہ کے محاصرے کے بعد ناکام واپس ہوئے۔ لاھور پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے اپنے پسندیدہ غلام ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا جِس نےشہرکے گرد دیوار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قلعہ لاھور کی بھی بنیاد رکھی۔ ملک ایاز کا مزار آج بھی بیرون ٹکسالی دروازہ لاہور کے پہلے مسلمان حکمران کے مزار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ غزنوی حکمرانوں کے ابتدئی آٹھ حکمرانوں کے دور میں لاھور کا انتظام صوبہ داروں کے ذریعہ چلایا جاتا تھا تاہم مسعود ثانی کے دور میں(۱۱۱۴۔ ۱۰۹۸) دارالحکومت عارضی طور پر لاھور منتقل کر دیا گیا۔اس کے بعد غزنوی خاندان کے بارہویں تاجدار خسرو کے دور میں لاہور ایک دفعہ پھر پایہِ تخت بنا دیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1186میں غزنوی خاندان کے زوال تک برقرار رہی۔ غزنوی خاندان کے زوال کے بعد غوری خاندان اور خاندانِ غلاماں کے دور میں لاھور سلطنت کے خلاف سازشوں کا مرکز رہا۔ درحقیقت لاہور ہمیشہ پٹھانوں کے مقابلہ میں مغل حکمرانوں کی حمایت کرتا رہا۔1241 عیسوی میں چنگیز خان کی فوجوں نے سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کی فوج کو راوی کے کنارے شکست دی اور حضرت امیر خسرو کو گرفتار کیا۔ اس فتح کے بعد چنگیز خان کی فوج نے لاھور کو تاراج کر دیا۔
خلجی اور تغلق شاہوں کے ادوار میں لاھور کو کوئی قابلِ ذکر اہمیت حاصل نہ تھی اور ایک دفعہ گکھڑ راجپوتوں نے اسے لوٹا۔ 1397 میں امیر تیمور برصغیر پر حملہ آور ہوا اور اس کے لشکر کی ایک ٹکڑی نے لاہور فتح کیا۔ تاہم اپنے پیشرو کے برعکس امیر تیمور نے لاہور کو تاراج کرنے سے اجتناب کیا اور ایک افغان سردار خضر خان کو لاھور کا صوبہ دار مقرر کیا۔اس کے بعد سے لاھور کی حکومت کبھی حکمران خاندان اور کبھی گکحڑ راجپوتوں کے ہاتھ رہی یہاں تک کہ 1436 میں بہلول خان لودھی نے اسے فتح کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بہلول خان لودھی کے پوتے ابراہیم لودھی کے دورِ حکومت میں لاھور کے افغان صوبہ دار دولت خان لودھی نے علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنی مدد کے لئےمغل شہزادے بابر کو پکارا۔
لاھور مغلیہ دور میں
بابر پہلے سے ہی ہندوستان پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور دولت خان لودھی کی دعوت نے اس پر مہمیز کا کام کیا۔ لاھور کے قریب بابر اور ابراہیم لودھی کی افواج میں پہلا ٹکراؤ ہوا جس میں بابر فتحیاب ہوا تاہم صرف چار روز کے وقفہ کے بعد اس نے دہلی کی طرف پیشقدمی شروع کر دی۔ ابھی بابر سرہند کے قریب ہی پہنچا تھا کہ اسے دولت خان لودھی کی سازش کی اطلاع ملی جس پر وہ اپنا ارادہ منسوخ کر کے لاھور کی جانب بڑھا اور مفتوحہ علاقوں کو اپنے وفادار سرداروں کے زیرِانتظام کرکے کابل واپس ہوا۔ اگلے برس لاہور میں سازشوں کا بازار گرم ہونے کی اطلاعات ملنے پر بابر دوبارہ عازمِ لاھور ہوا۔ مخالف افواج راوی کے قریب مقابلہ کے لئےسامنے آئیں مگر مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہی بھاگ نکلیں۔ لاھور میں داخل ہوئے بغیر بابر دہلی کی طرف بڑھا اور پانی پت کی لڑائی میں فیصلہ کن فتح حاصل کرکے دہلی کے تخت پر قابض ہوا۔ اس طرح ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی ابتداء لاھور کے صوبہ دار کی بابر کو دعوت سے ہوئی۔لاہور سے امرتسر
شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں بھی سکھ مت اتنا واضح اور الگ مذہب نہیں بنا تھا لیکن آثار نمایاں ہونے لگے تھے کہ اب سکھ مغلیہ سلطنت کے مرکز برائے پنجاب یعنی لاہور کے بجائے امرتسر کی جانب دیکھنے لگے تھے [1]۔ سکھ ذرائع کے مطابق شہنشاہ جہانگیر کے کہنے پر ادی گرنتھ میں ترامیم سے گرو ارجن کے انکار پر ، اس نے خسرو کو امداد فراہم کرنے کا بہانا بنا کر ان کو قتل کروا دیا تھا [2] اور اس بات نے ان کے بیٹے اور چھٹے گرو ہرگوبند (1595ء تا 1644ء) کو عسکری طاقت کی جانب مائل کردیا تھا جس کے ردعمل کے طور پر جہانگیر نے ایک بار امرتسر سے ہرگوبند کو گرفتار بھی کرا لیکن پھر آزاد کردیا۔ ہرگوبند نے مغلیہ سلطنت کو ناجائز قرار دیکر اپنے پیروکاروں کو اسے تسلیم کرنے سے منع کردیا تھا اور گرو کو خدا کی جانب سے دی جانے والی سلطنت کو جائز قرار دیا؛ شاہجہان کے دور (1628ء تا 1658ء) میں رام داس پور (امرتسر) پر حملہ کیا گیا اور ہرگوبند نے امرتسر سے بھاگ کر کرتار پور میں سکونت اختیار کی۔ اورنگزیب کے تبدیل ہوتے ہوئے کردار نے مختلف واقعات کو جنم دیا جن میں ایک سکھوں سے معاملات کا واقع بھی ہے جس میں محصول یا جزیہ پر ہونے والی معاشیاتی کشمکش کو مذہب اور خودمختاری سے جوڑ دیا گیا۔ تیغ بہادر کے قتل کو متعدد تاریخی دستاویزات میں سکھ مسلم ناچاقی یا نفرت کا آغاز کہا جاتا ہے [3]۔لاہور کے مشہور دروازے
- دہلی دروازہ
- اکبری دروازہ
- شاہ عالمی دروازہ
- لوہاری دروازہ
- موری دروازہ
- بھاٹی دروازہ
- ٹکسالی دروازہ
- روشنائی دروازہ
- مستی دروازہ
- کشمیری دروازہ
- خضری دروازہ
- ذکی دروازہ المعروف یکی دروازہ
- شیراں والا دروازہ
لاہور کے اسلامی مرکز
(pixels, file size: 37 KB, MIME type: image/jpeg) لاہور کی مسجدیں، مزارات، مدرسے و اسلامی علوم کی درسگاہیں مشہور ہیں۔ ابتداسے ہی لاہور علم اور عمل کا مرکز رہا ہے۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی بڑے بڑے علماء اور مشایخ نے لاہور میں تبلیغ دین کے لیے سفر کیے۔ سید اسمعیل بخاری, مثلاً سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کا مزار داتا دربار بہت مشہور ہے۔اسلامی علوم کی درسگاہیں و جامعات بھی موجود ہیں مثلاً:
- بادشاہی مسجد لاہور
- مرکزسراجیہ.
- جامعہ اشرفیہ
- جامعیہ مدنیہ (کریم پارک)
- جامعہ ہجویریہ: داتا دربار کے ساتھ منسلک ایک مسجد و جامعہ
- جامعۃ المنتظر: اہل تشیع کی مرکزی مسجد و جامعہ
غیر مسلموں کے مقدس مقامات
مندر
کنہیالال لکھتا ہے کے پرانی عمارات کے مندر اور ہندوءوں کی عبادت گاہیں بہت ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔چھوٹے چھوٹے شوالے و ٹھاکر دوارے و دیوی دوارے بے شمار ہیس۔ان میں سے و جدید دونوں قسم کے ہیں۔ مگر سکھی عہد میں پرانی عمارات کے مندر بھی ازسر نو نباءے گءے تھےجن کی عمارات تازہ نظرآتی ہیں۔بعض مندر جو اُن سے نامی گرامی ہیں اورخاص و عام وہاں جا کر پوجا کرتے ہیں اس قسم میں لکھے جاتے ہیں۔(1)مگریاد رءے کہ یہ کنہیالال نے 1882ء میں اپنی کتاب تاریخ لاہور میں لکھا تھا ۔اور آج بہت سہ مقامات ختم ہو چوکے ہیں۔- شوالہ باواٹھاکرگر
- شوالہ راجہ دینا ناتھ راجہ کلانور
- شوالہ بخشی بھگت رام
- مکان دھرم سالہ بابا خدا سنگھ
- ٹھاکر دوارہ راجہ تیجا سنگھ
- شوالے گلاب راءے جمعدار
وہ مندر جس میں اب بھی عبادت ہوتی ہے
[ سکھوں کے مقدس مقامات
لاہور کے مشہور علاقے
لاہور کے مشہور علاقے درج ذیل ہیں۔اچھرہ | سمن آباد | فیصل ٹاؤن | ماڈل ٹاؤن | مسلم ٹاؤن | ||
حسن ٹاؤن | گوالمنڈی | اعوان ٹاؤن | کھاڑک نالہ | اقبال ٹاؤن | سبزہ زار سکیم | ٹاؤن شپ |
مصطفےٰ ٹاؤن | گلشنِ راوی | گرین ٹاؤن | شاد باغ | چاہ میراں | ||
قلعہ گوجر سنگھ | رائل پارک | اسلام پورہ | باغبانپورہ | جوہر ٹاؤن | ||
نیاز بیگ | ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی | کینال ویو ہاؤسنگ سوسائٹی | نشاط کالونی | شادمان | ||
گلبرگ | ساندہ | انارکلی | شاہدرہ | مغلپورہ | اندرونِ شہر (پرانا لاہور) | یوحناآباد |
] مشہور تعلیمی ادارے
اضلاع
اٹک ·
اوکاڑہ
· بہاولپور ·
بہاولنگر
· بھکر ·
پاکپتن
ضلع جہلم کا روہتاس قلعہ |
· ٹوبہ ٹیک سنگھ
· جہلم ·
جھنگ ·
چکوال
· چنیوٹ ·
حافظ آباد ·
خانیوال
· خوشاب
· ڈیرہ غازی خان
· راجن پور
· راولپنڈی
· رحیم یار خان
· ساہیوال
· سرگودھا
· سیالکوٹ
· شیخوپورہ
· فیصل آباد
· قصور ·
گوجرانوالہ ·
گجرات ·
لاہور ·
لودھراں ·
لیہ ·
مظفر گڑھ ·
ملتان ·
منڈی بہاؤالدین
· میانوالی ·
نارووال ·
ننکانہ صاحب ·
وہاڑی
بہت خوب
ReplyDeleteمزید پڑھیں
ReplyDeleteکھیرے کے فوائد
پنجابی زبان کی ابتداء اور تاریخ .