قبائل


بلوچستان کے قبائل

بگٹی قبیلہ: بگٹی قبیلہ بہت بڑا اور اہم قبائل میں سے ہے۔ بعض دوسری قبائل کی طرح یہ قبیلہ بھی بہت سے دوسرے بلوچ قبائل کی آمیزش ہے۔ بہر حال ان میں زیادہ تر رند نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ زیادہ تر سبی ضلع کے جنوب مشرقی حصہ میں تقریباً 3800 مربع میل کے علاقہ میں رہتے ہیں۔ یہ زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے۔ یہ لوگ عام طور پر شمال میں اپنے ہمسائے مری قبیلہ سے لڑتے رہتے ہیں۔ 1891ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی کل آبادی 18528 افراد تھی۔ جن میں سے 2500 لڑنے والے لوگ تھے۔ بہر حال اب اس قبیلے کی لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ کیونکی اب ان لوگوں کے حالات پہلے کی نسبت بہت بہتر ہوگئے ہیں۔ اور سخت قسم کی جنگوں کی تعداد بھی اب نسبتاً کم ہو گئی ہے۔ جو پہلے عموماً ہر سال ہی ہوتی
رہتی تھی۔
شجرہ بگٹی بلوچ قبیلہ:
 
  • بگٹی یا زرکانی
      • ببرک زئی
      • کرموزئی
      • قاسمانی
      • مندرانی
    • سیاہن زئی
      • ہیبتانی
    • کیازئی بگٹی ی یا نوتھانی
      • کیسیا زئی
      • سید یانی
      • مہران زئی
      • چاکرانی یا راہین زئی
      • چندرم زئی
      • پیروزانی
      • پیش بر
      • رامین زئی
      • شالوانی
      • سبزوانی
    • مسوری بگٹی
      • بگرانی
      • بخشوانی
      • پیروزئی
    • کھلپر بگٹی
      • پھدلانی
      • ہوتکانی
    • نوحکانی بگٹی
      • نوحکانی
    • موندرانی یا پھاغبر
      • موندرانی

بزنجو
 ان کی اکثریت کے بارے میں بلوچ عوام کا خیال ہے کہ یہ زکری ہیں اگر چہ کے غوث بخش بزنجو نے اپنے زکری ہونے کی ہمیشہ ہی تردید کی ہے گڈانی کے مرحوم وڈیرہ خدا بخش بھی بزنجو ہی تھے مگر وہ اپنے آپ کو سنی مسلمان بتاتے تھے بزنجو قبیلے کی بہت بڑی تعداد لسبیلہ میں سونمیانی اور وندر کے قریب بھی رہتی ہے یہاں ان کے سربراہ اسلم بزنجو ہیں ، لہڑی،بزدار،گچکی،
مکرانی بلوچ ۔یہ بنیادی طور پر مکران ،اور ریاست خاران ،گوادر، تعلق رکھتے ہیں ان میں بڑے قبائل میں نوشیروانی ( بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی ہیں جن کا تعلق نوشیروانی قبیلے سے ہے )،
گچکی ، بلیدئی ،رند ،کلمتی، گورگیچ، لاشاری، رئیس، جدگال، کھوسہ مید قبائل شامل ہیں جن کا مرکز مکران میں کولواہ، اور بلیدہ ہیں گچکی ان کا مرکز پنجگور ہے بلیدئی ان کا مرکز بلیدہ ہے


۔ رند مکران کے علاقے مند اور کچھی کے علاقے سوران میں یہ بڑی تعداد میں مقیم ہیں بلوچستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جن کی اکثریت سنی المذہب ہے دوسری بڑی اکثریت زکریوں کی ہے جن کے سماجی اور معاشرتی اثرات بلوچستان کی سیاست پر پڑتے ہیں زکری مکران کے علاقے میں بڑی اکثریت میں موجود ہیں ان کے علاوہ ہندو اقلیت بھی تما م بلوچستان میں موجود ہیں جن کوپانچ حصوں میں منقسم کیا جاتا ہے(1) بھاٹیہ (2) لوہانی (3) ملتانی (4) ڈیرہ والی(5) چھابڑ ۔ کچھ پارسی بھی ہیں جو کوئٹہ اور بڑے شہروں تک ہی محدود ہیں
مینگل قبیلہ  
بلوچستان کے براہوی بلوچوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے اس کامرکز خضدار میں وڈہ کا مقام ہے جو اب ضلع خضدار کی تحصیل ہے مینگل بنیادی طور پر بلوچوں کی رند شاخ سے تعلق رکھتے ہیں مگر براہوی زبان بولنے کی وجہ سے براہوی شمار کئے جاتے ہیں سابقہ ریاست قلات کی بنائی ہوئی ترتیب کے مطابق مینگل ساراوان کے صف میں شمار کئے جاتے تھے اور آج بھی ساراوان میں شمار کئے جاتے ہیں مینگلوں کا مرکز خضدار کے قریب ووڈھ کا قصبہ ہے جہاں عطاء اللہ مینگل اور ان کے بیٹے مقیم ہیں مینگل قبیلے کی مندرجہ زیل شاخیں ہیں جن کی نوعیت اس طرح سے ہے (یہ حیرت کہ بات ہے کہ رائل ایشیاٹک سوسائیٹی کی جانب سے شائع کردہ کتاب ،بلوچ قبائل جس کے مصنف ایم لونگ ورتھ ڈیمز ہیں اور روسی اسکالر م ک پیکولین اپنی کتاب بلوچ میں بلوچ قبائل کے شجرے اوران کی تفصیلات کا تذکرہ کرتے ہیں وہیں مینگل قبیلے کا تذکرہ ان دونوں کی کتابوں میں سرے ہی سے مفقود ہے( بہت سے بلوچ تاریخ دان مینگولوں کو دراصل منگولوں یا مغلوں کی اولاد تصور کرتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ کہ ایم لونگ ورتھ ڈیمز ہاور روسی اسکالر م ک پیکولین نے مینگلوں کا تذکرہ اپنی کتابوں میں نہیں کیا ہے ) ا جسٹس (ر) میر خدا بخش مری بجارانی اپنی کتاب سرچ لائٹ آن بلوچس اینڈ بلوچستان SEARCHLIGHTS ON BALOCHES AND BALOCHISTAN کے صفحہ نمبر328 پر مینگل قبائل کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مینگل قبائل بنیادی طور پر تین حصوں میں منقسم ہیں جن کو شاہ زئی ، زگر، اور سملانی کہا جاتا ہے شاہ زئی مینگل قلات ( اب خضدار) وڈھ میں مقیم ہیں
زگر مینگل ضلع چاغئی میں اور سملانی ، ضلع کچھی ، ضلع خاران اور ضلع چاغئی میں مقیم ہیں ۔ اس قبیلے کا پنا سردار ہے مشہور شاعر اور مورخ سردار میر گل خان نصیر کاتعلق زگر مینگل قبیلے ہی سے تھا جو نوشکی کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے
عطا ء اللہ مینگل بلوچ قبیلے مینگل کے سربراہ ہیں1930 میں شاہ زئی مینگلوں کے مرکزوڈھ میں سر دار رسول بخش مینگل کے گھر میں پیدا ہوئے سردار عطاء اللہ مینگل نے ابتدائی تعلیم ضلع قلات ہی میں حاصل کی سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنی عملی اور سیاسی زندگی کا آغاز قلات ڈسٹرکٹ کونسل سے کیا 1956 میں مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن بنے 1962 میں قلات ڈیویژن سے قومی اسمبلی کے رکن بنے سردار خیر بخش مری اور غوث بخش بزنجو کو ساتھ مل کر نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان شاخ کو منظم کیا0 197 کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی ولی خان گروپ کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اسی دوران ڈاکٹر حئی گروپ کے ڈاکٹر حئی بلوچ( جو بی ایس او کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں ان کو سابقہ نیپ کی جانب سے1970قلات کی قومی اسمبلی کی نشست کے لئے خان آف قلات کے بیٹے کے خلاف انتخاب لڑایا گیا تھا جس میں انہوں نے خان آف قلات کے بیٹے کو شکست دیدی تھی یکم مئی1972 کو انہوں نے جمعیت علمائے اسلام JUI کے ساتھ اشتراک سے صوبائی حکومت کو تشکیل دیا مگراس موقع پراپنے سیاسی ساتھی اور بلوچستان کے طاقتور سردار نواب اکبر بگٹی کو نظرانداز کیا جس کا خمیازہ ان کو آئندہ بھگتنا پڑا 15 فروری 1973 تک صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ان کی حکومت کے ٹوٹنے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم زوالفقار علی بھٹو نے ان کو دیگر بلوچ رہنماؤں کے ہمراہ گرفتار کرلیا زوالفقار دور ،میں جب بلوچستان میں فوجی آپریشن کیاجارہا تھا تو اس دور میں کراچی کے ڈی اے اسکیم نمبر ون میں پیر پگارا کی موجودہ رہائیشگاہ کے نزدیک وہاں سے اچانک ان کے بڑے بیٹے سردار اسد اللہ مینگل کا اغوا ہوگیا سردار اسد اللہ مینگل اس اغوا کے بعد کہاں گئے یا ان کا کیا ہوا ؟ یا اسد اللہ مینگل کی لاش کا کیا بنا یہ بھی کسی کو آج تک نہیں معلوم ؟یہ بھی کسی کو آج تک نہیں معلوم کہ اسد اللہ مینگل کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
5جولائی 1977کو زوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیائالحق بر سر اقتدار آئے جس کے نتیجے میں ان کو رہائی ملی تو اس وقت سردار عطا ء اللہ مینگل نے اپنے مرحوم بیٹے اسد اللہ مینگل کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر کچھ نہیں معلوم ہوسکا سردار عطاء اللہ مینگل کا کہنا ہے کہ ایک انٹیلی آفیسرجس کا تعلق آرمی سے تھا اس قتل میں ملوث تھا اس لئے ضیاء حکومت نے قاتلوں کی تلاش میں سرگرمی کے ساتھ کوشش نہیں کی اور اس معاملے کودفن کردیا گیا ۔سردار عطا ء اللہ مینگل نے اس کے بعد خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی ( مگر لندن جانے کا اور جلاوطنی کا معاؤضہ حکومت پاکستان ہی سے حاصل کیا حوالہ نوائے وقت 24-09-1988)) اور لندن چلے گے اس کو انہوں نے جلاطنی کا نام دیا جس کے بعد ان کے بیٹے سردار اختر مینگل قائم مقام سردار بنے لندن جلا وطنی کے دور میں سردار عطاء اللہ مینگل نے بلوچ لیبریشن آرگنائیزیشن کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب عطا ء اللہ مینگل خود ساختہ جلا وطنی کے تحت لندن میں مقیم تھے اس وقت لند ن میں سردار عطا ء اللہ مینگل نے بی ایل اے کے قیام کا اعلان کیا ( جس کی طرف اکبر بگٹی نے اس طرح سے اشارہ کیا تھا کہ بی ایل او بہت پرانی تنظیم ہے یہ بہت پہلے قائم کی گئی تھی ) اسی دوران لندن سے آزاد بلوچستان کے نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا اس کے ساتھ ہی ورلڈ بلوچ آرگنائیزیشن کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی لندن میں سردا ر عطا ء اللہ مینگل نے اپنے اہل خانہ کے لئے ایک بنگلہ بھی خریدا جب کے بی ایل اے اور آزاد بلوچستان نامی اخبار چلانے کے لئے بہت ہی بڑے سرمائے کی ضرورت پڑتی رہی تھی یہ سرمایہ کون فراہم کرتا رہا ہے اس کا جواب اب تک کسی کو بھی نہیں معلوم رہا ہے مگر سردار عطاء اللہ مینگل کا امریکہ کی جانب جھکاؤ اب اوپن سیکرٹ بن چکا ہے ۔ ممتاز علی بھٹو ، عبدالحفیظ پیرزادہ کے ساتھ مل کر سندھی بلوچی پختون فرنٹ تشکیل دیا ( پونم کی بنیاد بھی سندھی بلوچی پختون فرنٹ کے اصولوں پر رکھی گئی ہے )
۔1992 میں لندن سے واپس پاکستان آئے اور بلوچستان کی سیاست میں سر گرمی کے ساتھ حصہ لینے لگے جس کے نتیجے میں 1988کے انتخابات سے قبل اپنے دیرینہ دشمن اکبر بگٹی اور ڈاکٹر مالک کے ساتھ اتحاد کیا اس ا تحاد کے نتیجے میں بلوچستان نیشنل الائینس کا قیام عمل میں آیا یہ تین گروپوں پر مشتمل تھی پہلا گروپ بلوچستان نیشنل الائینس کو نواب اکبر بگٹی کے گروپ تھا جس میں ان کے دونوں داماد ہمایوں مری سردار چاکر خان ڈومکی اور بھانجے سردار طارق کھیتران اور بیٹے نوابزادہ سلیم بگٹی(مرحوم ) شامل تھے جبکہ دوسرے گروپ کی قیاد ت ،بی ایس او کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبدالحئی اور ان کے ساتھی منظور گچکی، ڈاکٹر ڈاکٹر مالک بلوچ تھے تیسرا گروپ سردار عطاء اللہ مینگل کا گروپ تھا جس کے رہنماؤں میں سردار عطا ء اللہ مینگل کے صاحبزادے اختر مینگل ، سردار جان محمد حسنی اور خان محمد مینگل شامل تھے ان انتخابات میں بی این اے نے جہاں بہت سی جگہوں سے کامیابی حاصل کی وہیں ڈاکٹر عبدالحئی اور منظور گچکی نے سردار عطا ء اللہ مینگل کے پرانے ساتھی اور بلوچستان کے سبق گورنر سردار غوث بخش بزنجو کو شکست دلانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔
 بی این اے کے امیدوار منظور گچکی ،نے جو بی ایس او کے سابق رہنما تھے اپنے استاد اور بی ایس او کے سرپرست سردار غوث بخش بزنجو کو بری طرح سے شکست سے دوچار کردیا بی این اے کی اس کامیابی کے نتیجے میں نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے مگر اس کے ساتھ ہی بلوچ قوم پرست سیاست میں بی این اے کے زریعے بہت بڑی دراڑیں ڈال دی گئیں چونکہ ان تینوں گروپوں کے اندرذاتی، نظریاتی ،گروہی، سماجی،قبائلی، اختلافات تھے اس لئے جلد ہی بی این اے کے اندر اختلافات کا ایک طوفان گرم ہوگیا اقتدار حاصل کرنے کے بعد بی این اے اختلافات کا منبع اور مخرج بن گیا جس کے اثرات جلد ہی اس طرح سے رونما ہوئے کہ اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی بی این اے کا بھی خاتمہ ہوگیا
اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی بی این اے کا بھی خاتمہ ہوگیا ادھر سابق صدر غلام اسٰحق خان نے قومی و صوبائی اسمبلیاں توڑیں اور اس کے چند دن کے بعد ہی نواب اکبر بگٹی نے جمہوری وطن پارٹی کی داغ بیل ڈالدی انتخابات کے نتیجے میں جمہوری وطن پارٹی بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی مگر اب بی این اے دور کے اتحادی ہی سب سے بڑے مخالف بن کر سامنے آئے سردار عطا ء اللہ مینگل اور ڈاکٹر عبدالحئی اور ان کے ساتھیوں نے نواب ذوالفقار مگسی کو بلوچستان کاوزیر اعلیٰ بنانا پسند کرلیا    
مگر نواب اکبر بگٹی کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنانا پسند نہیں کیا اس صورتحال کے بعد نواب اکبر بگٹی بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنا د ئیے گئے جس کے بعد ان سرداروں کی سیاست اس دریا کی مانند بن گئی جس کے کنارے ہمیشہ ہی ساتھ رہتے ہیں مگر ان میں کبھی بھی ملاپ ممکن نہیں ہوسکتا ہے چند سالوں کے بعد اقتدار کے حصول کے لئے سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنے کچھ اتحادی دوبارہ بلوچ نیشل پارٹی کے روپ میں جمع کئے اب کی بار ان کے درمیان بہت گلے شکوئے ہوئے اور ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرنے کے وعدے کئے گئے 1997 کے عام انتخابات میں بی این پی واضح اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں پہنچی سردار عطا ء اللہ مینگل نے اب کی بار اپنے سب سے چھوٹے بیٹے اختر مینگل کا نام وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کیا اس وقت کی برسر اقتدارمسلم لیگ نون، اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کی حمائت سے سردار عطا ء اللہ مینگل کے سب سے چھوٹے بیٹے سردار اختر مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے مگر یہ اتحاد بھی زیادہ مدت تک چل نہیں سکا اور بی این پی دو ٹکڑوں میں اس طرح سے بٹاکہ سردار عطا ء اللہ مینگل کی بی این پی کے پاس محض چار یا پانچ ایم پی اے ہی رہ گئے تھے جس کے نتیجے میں سردار عطا ء اللہ مینگل کی بی این پی کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اب کی بار نئے وزیر اعلیٰ مسلم لیگ کے جام یوسف بنے جو سردار عطا ء اللہ مینگل کی سگی سالی کے بیٹے ہیں اس طرح سے جام یوسف سردار عطا ء اللہ مینگل کے بھانجے ہوتے ہیں جام یوسف نے اتحادی جماعتوں کی حمائت سے نئی حکومت قائم کی جس کا تسلسل جنرل پرویز مشرف حکومت کے خاتمہ تک قائم رہا اب جب کہ بلوچستان میں2008 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے اور کل کی اپوزیشن آج کی حکمران بن چکی ہے بلوچ سیاست بلوچستان کے عظیم رہنماوں سردار بزنجو اور نواب اکبر بگٹی کے گیر نئے انداز اور روپ کے ساتھ سامنے آرہی ہے ۔۔۔۔ جاری ہے۔

8 comments: