صوبہ خیبر پختونخوا



خیبر پختونخوا

خیبر پختونخوا پاکستان کے چار صوبوں میں سب سے چھوٹا صوبہ ہے. صوبہ خیبر پختونخوا شمال مغرب کی طرف افغانستان، شمال مشرق کی طرف شمالی علاقہ جات، مشرق کی طرف آزاد کشمیر، مغرب اور جنوب میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات، جنوب مشرق کی طرف پنجاب اور اسلام آباد سے ملا ہوا ہے. صوبے میں سب سے بڑا نسلی گروہ پشتونوں کا ہے، جن کے بعد دوسرے چھوٹے نسلی گروہ بھی موجود ہیں اکثریتی زبان پشتو اور صوبائی دارالحکومت پشاور ہے۔۔
خیبر پختونخوا



ملکپاکستان
دارالحکومت
Coordinatesپشاور
بڑا شہرپشاور
آبادی (2008)
• Density20,215,000
• 259.6/km²
علاقہ74,521 km²
منطقۂ وقتPST (UTC+5)
بڑی زبانیںپشتو (اکثریتی)، ہندکو (مقامی)، کھوار (مقامی)، اردو (قومی)، انگریزی (سرکاری)
حیثیتصوبہ
اضلاع24
قصبے

[[یونین کونسلیں]]986
تاسیسJuly 1, 1970
گورنر/کمشنر

وزیرِ اعلیٰامیر حیدر خان ہوتی
مجلسِ قانون ساز (نشستیں)صوبائی اسمبلی (124)
موقع حبالہ حکومتِ خیبر پختونخوا

جغرافیہ صوبہ خیبر پختوانخواہ

درۂ خیبر
پختونخواہ کا علاقہ ارضیاتی طور پر حساس جگہ پر واقع ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں یہاں کئی زلزلے آچکے ہیں مثلاً زلزلۂ کشمیر. مشہور درّۂ خیبر صوبے کو افغانستان سے ملاتا ہے. صوبہ خیبر پختونخواہ کا رقبہ 28,773 مربع میل یا 74,521 مربع کلومیٹر ہے.
صوبہ خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا شہر پشاور ہے جو کہ صوبے کا دارالحکومت بھی ہے. دوسرے بڑے شہروں میں نوشہرہ، مردان، چارسدہ، مانسہرہ، ایوبیہ، نتھیاگلی اور ایبٹ آباد شامل ہیں. ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، بنوں، پشاور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ بڑے اضلاع ہیں.
صوبہ خیبر پختونخواہ کا خطہ جنوب میں خشک پتھریلی علاقوں جبکہ شمال میں سبز میدانوں پر مشتمل ہے. آب و ہوا شدید ہے، سردیوں میں یخ ٹھنڈ اور گرمیوں میں نہایت گرمی پڑتی ہے. شدید موسم کے باوجود زراعت زیادہ ہے. سوات، کالام، دیر بالا، ناران، اور کاغان کی پہاڑی زمین حسین وادیوں کے لئے مشہور ہے. ہر سال کئی ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں. سوات-کالام کو ‘‘سوٹزرلینڈ کا ٹکڑا’’ کہاجاتا ہے کیونکہ یہاں کے کئی مناظر سوٹزرلینڈ کے پہاڑی خطے سے مشابہت رکھتے ہیں.
۱۹۹۸ء کی مردم شماری کی مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کی آبادی ۱۷ ملین تھی جس میں سے ۵۲ فیصد مرد اور ۴۸ فیصد خواتین تھیں. آبادی کی کثافت ۱۸۷ فرد فی کلومیٹر ہے.
جغرافیائی لحاظ سے صوبہ خیبر پختونخواہ کو دو خطّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: شمالی خطہ اور جنوبی خطہ. شمالی خطہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے شروع ہوکر پشاور کے سرحد، جبکہ جنوبی خطہ پشاور سے شروع ہوکر دراجت تک ہے. شمالی خطہ سردیوں میں ٹھنڈی، برفیلی اور زیادہ بارشوں والی جبکہ گرمیوں میں موسم خوشگوار ہوتا ہے ما سوائے پشاور کے جہاں گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی پڑتی ہے. جنوبی خطہ خشک اور بنجر ہے، موسمِ گرما بہت گرم اور موسمِ سرما قدرے سرد ہوتا ہے، بارشیں کم ہوتی ہیں.
صوبہ خیبرپختنونخواہ کے دریاؤ میں دریائے کابل، دریائے سوات، دریائے چترال، دریائے پنجگوڑہ، دریائے باڑہ، دریائے کرم، دریائے گومل اور دریائے ژوب شامل ہیں.
صوبہ خیبر پختونخواہ جو کبھی گندھارا تہذیب کا گہوارا رہا ہے، اب یہ علاقہ پرہیزگار، پُرخلوص اور مہمان نواز مسلمانوں کے لئے مشہور ہے، جو اپنے مذہب، اقدار، ثقافت، تہذیب و تمدن، روایات اور طریقہ ہائے زندگی کی نہایت جوش و جذبے سے حفاظت کرتے ہیں.
آبادیات و سماجصوبہ خیبرپختونخواہ کی آبادی اندازاً ۲۱ ملین ہے. سب سے بڑا نسلی گروہ پختونوں کا ہے جن کی آبادی صوبے کی کل آبادی کا تقریباً ۶۶ فیصد ہے. سب سے بڑی زبان پشتو جبکہ ہندکو دوسری بڑی عام بولی جانے والی مقامی زبان ہے. پشتو مغربی اور جنوبی سرحد میں غالب زبان ہے اور یہ کئی شہروں اور قصبوں کی اصل زبان بھی ہے جن میں پشاور بھی شامل ہے. ہندکو بولنے والے مغربی سرحد مثلاً ہزارہ ڈویژن میں اور خصوصاً ایبٹ آباد، مانسہرہ اور ہری پور شہروں میں عام ہیں. سرائیکی اور بلوچی بولنے والے صوبے کے جنوب مشرق میں خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان میں رہتے ہیں.
صوبہ خیبر پختونخواہ کے مرکز اور جنوب کے دیہاتی علاقوں میں کئی پختون قبیلے آباد ہیں جن میں یوسفزئی، تنولی ، خٹک، مروت، آفریدی، شنواری، اورکزئی، بنگش، محسود، مھمند بنوچی اور وزیر شامل ہیں. شمال کی طرف سواتی، ترین، جدون اور مشوانی بڑے پشتون قبیلے ہیں. کئی غیر پشتون ق، بیلے بھی ہیں مثلاً اعوان، گجر وغیرہ. اعوان قبیلے کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اصل میں عرب ہیں اور اس قبیلے کے لوگ باقی پشتونوں اور غیر پشتونوں سے مختلف ہیں.
شمال میں ضلع چترال ہے جہاں چھوٹے نسلی گروہ جیسے کوہستانی، خوار، شینا، توروالی، کالاشا اور کالامی آباد ہیں.
اِس کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں ۱.۵ ملین افغان مہاجرین بھی قیام پذیر ہیں جن میں اکثریت پشتونوں کی ہے.
صوبہ خیبر پختونخواہ کے تقریباً تمام باشندگان مسلمان ہیں جن میں سُنّی سب سے زیادہ ہیں.
تاریخقدیم تاریخخطۂ صوبہ خیبر پختونخواہ میں قدیم زمانے سے کئی حملہ آور گروہ آتے رہے ہیں جن میں فارسی، یونانی، کُشن، ہُنز، عرب، تُرک، منگول، مُغل، سکھ اور برطانیہ شامل ہیں. 1500 اور 2000 قبل از مسیح کے درمیان، آریائی قوم کی ایک ایرانی شاخ بنی جس کی نمائندگی پشتون کررہے تھے اُنہوں نے صوبہ خیبر پختنونخواہ کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ کرلیا۔
۶ صدی عیسیوی سے وادئ پشاور مملکتِ گندھارا کا مرکز تھا. بعد میں یہ شہر کُشن دورِ سلطنت کا دارالحکومت بھی بنا. اس خطے پر کئی معروف تاریخی اشخاص کے قدم پڑے مثلاً دیریس دوم، اسکندر اعظم، ہیون سنگ، فا ہین، مارکوپولو، ماؤنٹسٹارٹ ایلفنسٹائن اور ونسٹن چرچل۔
خطّے پر موریائی قبضے کے بعد، بدھ مت یہاں کا بڑا مذہب بنا، خصوصاً شہری علاقوں میں جیسا کہ حالیہ آثاریاتی اور تشریحی شواہد سے پتا چلتا ہے. ایک بڑا کُشن فرماں روا کنیشکا بھی بُدھ مت کے عظیم بادشاہوں میں سے ایک تھا.
جبکہ دیہی علاقوں نے کئی شمنیتی عقائد برقرار رکھے مثلاً کالاش گروہ اور دوسرے. پشتونولی یا روایتی ضابطۂ وقار جس کی پشتون قوم پاسداری کرتی ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ اِس کی جڑیں بھی اسلام سے پہلے کی ہیں.
شاہی دورصدی عیسوی کے اوائل میں، اسلام کی آمد سے پہلے، صوبہ خیبر پختونخواہ پر بادشاہ حکومت کرتے تھے. پہلے حکمران تُرک تھے اور انہوں نے اِس خطے پر 870 صدی عیسوی تک حکومت کی. اُن کے بعد کے حکمرانوں کا شاید ہمسایہ کشمیر اور پنجاب کے حکمرانوں سے روابط تھے. جیسا کے آثار و تاریخ مثلاً سکّوں اور دوسری بنائی ہوئی چیزیں اُن کے کثیر ثقافتی کا ثبوت دیتی ہیں. ان آخری حکمرانوں کو اپنے برادرانہ قبیلوں نے آخر کار ختم کردیا جن کی کمان محمودِ غزنوی کررہے تھے۔
اِسلام کی آمدبدھ مت اور شمن پرستی اُس وقت تک بڑے مذاہب رہے جب تک مسلمانوں اور ترکوں نے 1000 صدی عیسوی کے آواخر میں قبضہ کرلیا. رفتہ رفتہ پشتون اور دوسرے قبیلے اسلام میں داخل ہوتے رہے. اِس دوران انہوں نے اپنے کچھ روایات برقرار رکھے جیسا کہ پشتونوں کی روایت پشتونولی یا ضابطۂ وقار و عزت. صوبہ خیبر پختونخواہ عظیم اِسلامی مملکت یعنی "غزنوید مملکت" اور مملکتِ محمد غور کا حصہ بھی رہا۔ اس زمانے میں باقی ماندہ مسلمان ممالک سے مسلمان تاجر، اساتذہ، سائنسدان، فوجی، شاعر، طبیب اور صوفی وغیرہ یہاں جوق در جوق آتے رہے۔
پشتون قوم پرستییہ صوبہ ایک اہم سرحدی علاقہ تھا جس پر مُغل اور فارس کے سفویوں کے درمیان اکثر اوقات تنازعہ رہتا تھا. مُغل حکمران اورنگزیب کے دَور میں، پشتون قوم پرست شاعر خوشحال خان خٹک نے اپنی شاعری کے ذریعے کئی پشتون قبائل کو حکمرانوں کے خلاف بیدار کیا، جس کی وجہ سے اِس خطے کو قابو میں رکھنے کے لئے بہت بڑی طاقت کی ضرورت تھی. خطہ بعد میں دُرّانی حکومت کے ذریعے یکجا ہوا جس کی بنیاد احمد شاہ دُرّانی نے ۱۷۴۷ء میں رکھی تھی.
برطانوی دور



افغانستان 1893ء کے ڈیورنڈ معاہدے سے پہلے
برطانیہ اور روس کے درمیان جنوبی ایشیاء پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے کئی تصادم ہوئے. جس کے نتیجے میں افغانستان کی تقسیم واقع ہوئی. افغانوں سے دو جنگوں کے بعد برطانیہ 1893ء میں ڈیورنڈ لائن نافذ کرنے میں کامیاب ہوگیا. ڈیورنڈ لائن نے افغانستان کا کچھ حصہ برطانوی ہندوستان میں شامل کردیا. ڈیورنڈ لائن، سر مورتیمر ڈیورنڈ کے نام سے ہے جو برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے معتمدِ خارجہ تھے. افغان ڈیورنڈ لائن کو ایک عارضی خط جبکہ برطانیہ اِس کو ایک مستقل سرحد سمجھتے تھے. یہ سرحدی خط قصداً ایسے کھینچی گئی کہ پختون قبیلے دو حصوں میں بٹ گئے.
برطانیہ جس نے جنوبی ایشیاء کا باقی حصہ بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کرلیا تھا، یہاں پر اُسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. پشتونوں کے ساتھ پہلی لڑائی کا نتیجہ بہت بُرا نکلا اور برطانوی فوج کا صرف ایک سپاہی جنگِ میدان سے واپس آنے میں کامیاب ہوا (جبکہ برطانوی فوجیوں کی کل تعداد 14,800 تھی). خطے میں اپنی رِٹ قائم رکھنے میں ناکامی کے بعد برطانیہ نے تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کا کھیل شروع کیا. برطانیہ نے اِس کھیل میں کٹھ پتلی پشتون حکمران صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھیجے. تاکہ پشتونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوسکے. باوجود اِس کے، موقعی پشتون حملے ہوتے رہے مثلاً محاصرۂ مالاکنڈ.
صوبہ خیبر پختونخواہ 9 نومبر 1901 کو بطورِ منتظمِ اعلٰی صوبہ بنا. اور اس کا نام صوبہ سرحد رکھا گیا۔ ناظمِ اعلٰی صوبے کا مختارِ اعلٰی تھا. وہ انتظامیہ کو مشیروں کی مدد سے چلایا کرتا تھا.
صوبے کا باضابطہ افتتاح 26 اپریل 1902ء کو شاہی باغ پشاور میں تاریخی ‘‘دربار’’ کے دوران ہوا جس کی صدارت لارڈ کرزن کررہے تھے. اُس وقت صوبہ خیبر پختونخواہ کے صرف پانچ اضلاع تھے جن کے نام یہ ہیں: پشاور، ہزارہ، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان. مالاکنڈ کی تین ریاستیں دیر، سوات اور چترال بھی اس میں شامل ہوگئیں. صوبہ خیبرپختونخواہ میں قبائل کے زیرِ انتظام ایجنسیاں خیبر، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان بھی شامل تھیں. صوبہ خیبر پختونخواہ کے پہلے ناظمِ اعلٰی ہرولڈ ڈین تھے.
صوبہ خیبر پختونخواہ ایک مکمل حاکمی صوبہ 1935ء میں بنا. یہ فیصلہ اصل میں 1931ء میں گول میز اجلاس میں کیا گیا تھا. اجلاس میں اِس بات پر اتفاقِ رائے ہوا تھا کہ صوبہ سرحد کا اپنا ایک قانون ساز انجمن ہوگا. اِس لئے، 25 جنوری 1932ء کو وائسرائے نے قانونساز انجمن کا افتتاح کیا. پہلے صوبائی انتخابات 1937ء میں ہوئے. آزاد اُمیدوار اور جانے پہچانے جاگیردار صاحبزادہ عبدالقیوم خان صوبے کے پہلے وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے.
آزادی کے بعدبرطانیہ سے آزادی کے بعد، 1947ء کے اِستصوابِ رائے میں صوبہ سرحد نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی. تاہم، افغانستان کے 1949ء کے لویہ جرگہ نے ڈیورنڈ لائن کو غلط قرار دیا. جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات ابھرے. 1950ء میں افغانستان نے علٰیحدگی پسند تحریک کی حمایت کی لیکن اِس تحریک کو قبائل میں پذیرائی حاصل نہ ہوئی. صدر ایوب خان کے پاکستانی صوبوں کے احذاف کے بعد، صدر یحیٰی خان نے 1969ء میں اِس ‘‘ایک اِکائی’’ منصوبے کو منسوخ کردیا اور سوات، دیر، چترال، کوہستان کو نئے سرحدات میں شامل کردیا.
1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے تک پختونستان کا مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی دہائیوں تک تنازعات کا مؤجب بنا. حملے کے سبب پچاس لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان کی طرف ہجرت کی، جو کہ زیادہ تر صوبہ سرحد میں قیام پذیر ہوئے (2007ء کے شمار کے مطابق قریباً تیس لاکھ ابھی بھی رہتے ہیں). افغانستان پر سوویت کے قبضے کے دوران، 1980ء کی دہائی میں صوبہ خیبر پختونخواہ مجاہدین کا بہت بڑا مرکز تھا جو سوویت یونین کے خلاف لڑرہے تھے.



نیا نام2010 میں پاکستان کی پارلمینٹ میں پیش کیے جانے والے آٹھارویں ترمیم میں صوبے کا نام صوبہ سرحد سے تبدیل کرکے خیبر پختونخواہ رکھا گیا۔ جو کہ یہاں کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔ اب اس صوبے کو اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
حکومتصوبہ خیبر پختنونخواہ کی صوبائی اسمبلی یک ایوانی ہے اور یہ 124 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں دو فیصد اقلیتوں اور سترہ فیصد خواتین کے لئے مخصوص ہیں.
اضلاع



صوبہ خیبر پختونخواہ کا اضلاعی نقشہ
صوبہ خیبر پختونخواہ میں 25 اضلاع ہیں:
ایبٹ آبادبنوںبٹگرامتور غربونیرچارسدہچترالڈیرہ اسماعیل خانہنگوہری پورکرککوہاٹکوہستانلکی مروتدیر زیریںمالاکنڈمانسہرہمرداننوشہرہپشاورشانگلہصوابیسواتٹانکدیر بالا

اہم شہر




پی.ٹی.ڈی.سی قیام گاہ، مالم جبہ اسکی مرکز، سوات، پاکستان
ایبٹ آبادبنوںبٹگرامبونیرچارسدہچترالڈیرہ اسماعیل خاندیرجمرودہنگوہری پورحویلیاںلتامبرلنڈی کوتلمالاکنڈمانسہرہمرداننوشہرہپشاورشانگلہصوابیسواتٹانککوہاٹ

معیشت




ضلع بٹگرام کے دیدال گاؤں کا ایک منظر
سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کی وجہ سے یہ خطہ کئی دہائیوں تک مشکلات کا سامنا کرتا رہا. آج پھر اِس خطے کے حالات خصوصاً معیشت ناگفتہ بہ ہے.
زراعت کا خیبر پختونخوا کی معیشت میں اہم کردار ہے. صوبے کے بڑے پیداوار گندم، مکئی، چاول، گنّا ہیں جبکہ کئی پھل بھی اگائے جاتے ہیں. پشاور میں کچھ صنعتی اور اعلٰی طرزیاتی سرمایہ کاری نے علاقے کے لوگوں کے لئے ذرائع آمدن مہیا کرنے میں بہت مدد کی ہے. صوبے میں ہر اُس چیز کی تجارت ہوتی ہے جس سے پاکستان کے لوگ واقف ہیں. اور یہاں کے بازار پورے پاکستان میں مشہور ہیں. صنعتوں کے قیام سے بے روزگاری میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے.
تعلیم
صوبے میں اعلٰی تعلیم کے طرف رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور صوبہ پختونخواہ میں پاکستان کی سب سے پہلی جامعۂ ہندسیات (غلام اسحٰق خان انسٹیٹیوٹ) بھی ہے. یہ جامعہ صوابی کے ایک قصبہ ٹوپی میں واقع ہے. جامعہ پشاور اعلٰی تعلیم کا ایک مشہور اِدارہ ہے.
درج ذیل خریطہ 1998ء میں حکومت کی خیبر پختونخوا کی شرح تعلیم کے اندازوں کے بارے میں ہے:
تعلیمی قابلیتشہریدیہیکُلاندازاً شرح(%)
—2,994,08414,749,56117,743,645—
ابتدائی سے پہلے413,7823,252,2783,666,060100.00
ابتدائی741,0354,646,1115,387,14679.33
وسطی613,1882,911,5633,524,75148.97
میٹرک647,9192,573,7983,221,71729.11
ثانوی272,761728,6281,001,38910.95
بی.اے، بی.ایس.سی ڈگری20,35942,77363,1325.31
ایم.اے، ایم.ایس.سی ڈگری183,237353,989537,2264.95
ڈپلومہ، سرٹیفیکیٹ82,037165,195247,2321.92
دوسرے19,76675,22694,9920.53

بڑے جامعات ،کالجیں اور ادبی تنظیمیں



اسلامیہ کالج، پشاور
زرعی یونیورسٹی پشاورایوب طب کالج, ایبٹ آبادکیڈٹ کالج رزمکفضائی ہندسیات کالجکالج آف فلائنگ ٹریننگغلام اسحٰق خان ادارۂ تعلیم برائے ہندسیات و سائنسیات, ٹوپیجامعہ گوملجامعہ ہزارہاسلامیہ کالج پشاورخیبر طب کالج پشاورجامعہ کوہاٹ برائے سائنس و طرزیاتفوجی کالج برائے ہندسیاتقومی ادارہ برائے نقل و حملقومی ادارۂ تعلیم برائے شمارندیات و ظہور پذیر سائنسیاتپاکستان فضائیہ اکیڈیمیپاکستان فوجی اکیڈیمیجامعہ ہندسیات و طرزیات پشاورجامعہ مالاکنڈجامعہ پشاورجامعہ سائنس و طرزیات، بنوںکھوار اکیڈمیپشتو اکیڈمیہندکو ادبی بورڈ


لوک موسیقی
پشتو لوک موسیقی پورے خیبر پختونخوا میں مقبول ہے. پشتو لوک موسیقی اپنے اندر کئی سو سالوں کی روایات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے. پشتو موسیقی میں استعمال ہونے والے بڑے آلات رباب، منگے اور ہارمونیم ہیں.کھوار لوک موسیقی چترال اور شمالی سوات میں مقبول ہے. کھوار موسیقی کے سُر پشتو موسیقی سے مختلف ہیں. چترالی ستار سب سے زیادہ استعمال ہونے والی آلۂ موسیقی ہے.
سندھ:




سندھ
سندھ پاکستان کے چارصوبوں میں سے ایک اہم صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ لفظ ’’سندھ‘‘ دراصل دریائےسندھ ہی سے مستعار ہے، جو سنسکرت لفظ ’’سندھو‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔



فہرست1 آب و ہوا2 تاریخ3 سندھ کی انتظامی تقسیم4 معیشت5 حوالہ جات6 بیرونی روابط

آب و ہواذیلی منطقہ حارہ میں واقع ہونے کی وجہ سے سندھ کی عمومی آب و ہوا، گرم اور خشک ہے جبکہ ساحلی علاقوں کا موسم قدرے مرطوب ہے۔ تاہم، گرمیوں (باالخصوص مئی۔جون) میں موسم سخت گرم اور سردیوں (باالخصوص دسمبر۔جنوری) میں موسم انتہاہی سرد رہتا ہے۔ سندھ کا علاقہ جیکب آباد اپنے ریکارڈ درجہ حرارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ جولائی اور اگست کے ماہ مون سون کے موسم ہیں۔ سندھ میں اوسطاً سالانہ سات انچ بارش ہوتی ہے۔ یہ بات کم ہی افراد جانتے ہیں کہ سندھ کے شمال میں کوہ کھیرتھرکے بعض علاقے سطح سمندر سے 6000 ہزار فٹ بلند ہیں اور موسمِ سرما میں اکثر یہاں برف باری ہوتی ہے۔
تاریخ
زمانہ قدیم سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموے ہوے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں(7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے ۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادئ سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ موہن جوداڑو کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے۔ جنہوں نےپانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادئ سندھ کو علمی، فنی، اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔ وادئ سندھ کے دامن میں کئی شہری مراکز قائم تھے، جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ موجودہ گرڈ سسٹم کے قاعدے کے مطابق آباد ان شہروں میں شاہرایں پختہ تھیں، اور نکاسی و فراہمئ آب کا زیرِ زمین نظام موجود تھا۔مگر پھر کسی ناقابلِ دریافت وجہ سے وادئ سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہوگئے۔ موہن جو داڑو اور دیگر دراڑوی مراکز کی تباہی کی کیا وجوہات تھیں، اس پر محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے قدرتی آفات اور سیلاب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض محققین کے نزدیک وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاوں کی فوجی یلغار نے یہ تہذیب نیست و نابود کردی۔ آریاوں نے یہاں ہند۔آریائی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو دریائےسرسوتی اور دریائے گنگا کے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب 1500 ق م میں اپنے عروج پر تھی۔ ہند۔آریائی تہذیب (ویدک سویلایزیشن 1700-500 ق م) نے ہندوستان کے مذہب، رسوم، معاشرت و رہن سہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
سندھ: کلہوڑا دور کا فنِ تعمیر
برِصغیر کے فن و ثقافت، خاص طور پر فنِ تعمیر کے ضمن میں محققین کی یہ شکایت عام ہے کہ علاقائی رجحانات پر نہ تو ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ ہی اِن نادر و نایاب نقوش کا کوئی مستند ریکارڈ آنے والی نسلوں کےلئے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس شکایت کے ازالے کی خاطر آج سے تین برس پہلے سندھی ثقافت کے امین ادارے سندھ آرکائیوز نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی جِسے ماہرین فنِ تعمیر کے علاوہ تاریخ کے طلباء نے بھی بہت سراہا اور بے چینی سے اس منصوبے کے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔
حال ہی میں اس سلسلے کا تحقیقی مواد ایک کتاب کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے۔ Kalhora Period Architecture جسکے مولّف ہیں سید حاکم علی شاہ بخاری۔
مواد کی ترتیب و پیشکش میں انھیں سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام محمد لاکھو اور ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کی مدد اور بھر پور تعاون حاصل رہا ہے۔
ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ورثہ دو طرح کا ہوتا ہے: مرئی اور غیر مرئی۔ مرئی اشیا وہ ہیں جنھیں ہم ٹھوس شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں مثلاً فنِ تعمیر، مصوری، صنم تراشی، نقاشی، کندہ کاری، زر دوزی وغیرہ، جبکہ غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شعر و ادب وغیرہ آتے ہیں۔ ٹھوس شکل میں نظر آنے والا ثقافتی ورثہ خودبخود محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر قدیم رومن آثار، یونانی کھنڈرات، پراچین بھارت کے مندر اور جنوبی امریکہ میں قبلِ مسیح کے تاریخی آثار کو بے رحم فطرت کے مقابل بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہوتا تو آج ہمیں قدماء کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوتا۔
سندھی تہذیب کی بہت سی تاریخی نشانیاں موسمی شداید کی نذر ہو کر ہمیشہ کےلئے نابود ہو چُکی ہیں، لیکن جو آثار ابھی موجود ہیں اُن کو ریکارڈ پر لانا اور اُن کے تحفظ کی جدو جہد کرنا، سندھ آرکائیوز کے مقاصد میں شامل ہے اور اس غرض سے کئی تحقیقی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ایسے ہی ایک ریسرچ پراجیکٹ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
پاک و ہند کے فنِ تعمیر پر یوں تو گذشتہ دو صدیوں سے کام ہو رہا ہے لیکن یہ محققین یورپ سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی تمام تر عرق ریزی کے باوجود یہ نکتہ اُن پر عیاں نہ ہوسکا کہ وہ ہندوستانی فنِ تعمیر کو یورپ کے روائیتی کلاسیکی پیمانوں سے ناپ رہے ہیں۔ اس سقم کا احساس پہلی بار 1920 کی دہائی میں ہوا لیکن تب تک ثقافتی مطالعے کے ضمن میں کئی اور نظری مسائل سر اُٹھا چُکے تھے، مثلاً یہی کہ ایک دور کے طرزِ تعمیر کو دوسرے دور سے ممیّز کرنے کےلئے ہم ایک واضح خطِ تقسیم کیسے کھینچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور ہر کیا ہم سلطنت دور کے فنِ تعمیر کو ایک لکیر کھینچ کر مغلیہ دور کے فنِ تعمیر سے الگ کر سکتے ہیں؟
زیرِ نظر کتاب میں یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خطِ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا لیکن ادب، آرٹ، کلچر اور تہذیب کی تقسیم دو ٹوک انداز میں نہیں ہوسکتی کیونکہ ایک دور کے اثرات اگلے دور کے انداز دُور تک مار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سندھ ارکائیوز کے ڈائریکٹر اقبال نفیس خان کی مدد سے مصنف حاکم علی شاہ بخاری نے اس پراجیکٹ کا قریب سے مطالعہ کیا اور ایک ایسی کتاب تحریر کی جو نہ صرف اسکالروں بلکہ عام قارئین کےلئے بھی دلچسپی کا باعث بنے اور کلہوڑا دور کے حوالے سے پڑھنے والوں کے ذہن میں سندھ کے قدیم اور جدید طرزِ تعمیر کی مختلف جہتوں کو روشن کرے۔
گڑھی کے مقام پر میاں نصیر محمد کی مسجد جو امتدادِ زمانہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوچُکی تھی، لیکن حال ہی میں اسکی تعمیرِ نو ہوئی ہے
کلہوڑا دور کے فنِ تعمیر پر بڑی تختی کے ایک سو ستائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب سندھ آرکائیوز نے خود شائع کی ہے۔ مختلف عمارتوں کی رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر حاصل کرنے کےلئے کراچی کے جوان سال فوٹو گرافر وقار اشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ طالب علموں کی قوتِ خرید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتاب کی قیمت صرف 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کہ کتاب پر آنے والی اصل لاگت سے بہت کم محسوس ہوتی ہے۔



سندھ کی انتظامی تقسیمموجودہ سندھ، انتظامی لحاظ سےمندرجہ ذیل 23 ضلعوں میں منقسم ہے۔
بدینٹھٹہحیدرآبادجیکب آبادخیر پوردادوٹنڈو الہ یارٹنڈو محمد خانسانگھڑشکارپورسکھرعمرکوٹقمبر علی خانکراچیکشمورگھوٹکیلاڑکانہمِٹیاریمیرپورخاصنوشیروفیروزنوابشاہقیپشتو لوک موسیقی پورے خیبر پختونخوا میں مقبول ہے. پشتو لوک موسیقی اپنے اندر کئی سو سالوں کی روایات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے. پشتو موسیقی میں استعمال ہونے والے بڑے آلات رباب، منگے اور ہارمونیم ہیں.
کھوار لوک موسیقی چترال اور شمالی سوات میں مقبول ہے. کھوار موسیقی کے سُر پشتو موسیقی سے مختلف ہیں. چترالی ستار سب سے زیادہ استعمال ہونے والی آلۂ موسیقی ہے.

5 comments:


  1. رباب گٹار سے ملتا جلتا آلۂ موسیقی ہے لیکن دونوں کی آواز اور شکل میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ رباب کا لفظ ’روب آب‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں پانی کا سرود یا نغمگی۔ ان کے مطابق پانی کے بہاؤ سے جو آواز نکلتی ہے وہ رباب سے ملتی جلتی ہے اسی وجہ سے اس ساز کو رباب کا نام دیا گیا۔ بقول رباب عربی زبان کا لفظ ہے
    djpunjab

    ReplyDelete
  2. From Abbottabad Dist some rong famaly ther r Abbasi kalar in kp 36 ex cm sardar mehtab MNA mertaza Abbasi mpa Nazeer Abbasi pti .sardar Sohrab Abbasi of Bakote ..ex mna sardar fada ex mps. Sardar fareed most be on in your gogle

    ReplyDelete
  3. بکوٹ ایبٹ اباد کی بڑی فیملی عباسی ہے سردار مہتاب مرتضی عباسی کڑال بھی قبیلہ ہے بکوٹ سے سررار غالب ارب پتی بزنس مین سردار محمد سھراب عباسی بکوٹ ۔ سردار نجیب exکسٹم ۔

    ReplyDelete