میمن برادری کی تاریخپاکستان کے قیام تعمیرا ورترقی میں اہم ترین کردار ادا کرنے والی میمن برادری کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حیرت انگیز بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی دوسری تجارتی برادریوں دہلی پنجابی سوداگر، چنیوٹ برادری، اور آغاخانی جماعت کی کچھ شاخوں کی مانند میمن برادری کے بزرگوں کا بنیادی تعلق پاکستان ہی سے تھا اور وہ صدیوں پہلے موجودہ پاکستان سے تلاش معاش یا تبلغ اسلام کی خاطر ہجرت کرکے اس خطے سے برصغیر ہندو پاک کے دیگر خطوں گجرات، راجھستان، دہلی ، بنگال، برما اور دیگر خطوں میں جو اب بھارت میں شامل ہیں چلے گئے تھے( انشاللہ آئندہ ان تمام برادریوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی جائے گی ) جہاں رہ کر ان برادریوں نے اس وقت وہاں قائم اسلامی حکومتوں کی ترقی اور تعمیر میں جہاں اپنا کردار حسن خوبی کے ساتھ ادا کیا وہیں پے ان علاقوں میں جہاں یہ برادریاں مقیم تھیں اسلامی اصولوں کے مطابق مساوات کے نظام کو قائم کیا اور ہندو مذہب کے بنیادی اصولوں جس کی بنیاد پر انسانیت کو تقسیم کیا گیا اور چھوت چھات کے نظام بنایا گیا ہے کو رد کیا جس کی وجہ سے صدیوں سے ظالمانہ ہندو نظام کے ظلم و ستم کی شکار مقامی آبادی میں اسلام تیزی سے پھیلتا چلا گیا نہ صرف اسلام پھیلا بلکہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر مقامی آبادی کا بڑا حصہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح سے گھل مل گیا کہ بعد میں آنے والوں کے لئے یہ شناخت کرنا ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ پہچان سکیں کہ ان میں پرانے مسلمان کون ہیں اور نئے مسلمان کون؟بات دور نکل جائے گی آئے اصل موضوع کی جانب میمن برادری کی تاریخ کا جب جائیزہ لینے کی کوشش کی گئی تو میمن برادری کی تاریخ کے بارے میں چھپنے والی تمام ہی کتابوں میں میمن برادر ی کے حوالے سے لکھا ہوا ہے کہ یہ دراصل سندھ کی لوہانہ قوم سے تعلق رکھتے تھے جو کہ راجہ داہر کے دور میں سندھ کے علاقے ٹھٹہ ، حیدرآباد ،شہداد پور، موجودہ نواب شاہ ، اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں مقیم تھے ان کی باقائدہ ایک ریاست قائم تھی جہاں لوہانہ قوم سے تعلق رکھنے والے سردار حکمران تھے یہ لوہانہ قوم کیا تھی ؟اور اس کا مذہب کیا تھا ؟ اور یہ کہاں سے آئی تھی اس کے بارے میں بات کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ راجہ داہر کے دور اور اس سے قبل کے دور پر ایک نگاہ ڈال لی جائے.3 710عیسوی یا 92ہجری میں سندھ اسلامی حکومت کا حصہ اس وقت بنا جب حضرت محمد بن قاسم نے مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ سندھ کے حکمران ہندو راجہ داہر کو شکست دی اس طرح اس خطے کی تاریخ میں710عیسوی کا سال اہم ترین قرار پایا جب سندہ کا خطہ اسلامی خلافت کا حصہ بنا اگر چہ کو اس دور کی تاریخ کو کئی اسباب کی بنا پر مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے مگر اس کے باؤجود سندھ کی تاریخ کے اہم ترین پہلو ان کوششوں کے باؤجود دب نہیں سکے ہیں سندھ اس زمانے میں اگر چہ راجہ داہر کے ماتحت ضرور تھا مگر اس وقت سندھ کی حیثیت اپنے پڑوسی ملک ایران کے باجگزار ملک کی تھی سندھ کا علاقہ اس وقت عارضی طور پر اس وقت آزاد ہوا جب ایران کی حکومت کا خاتمہ مسلمانوں نے کیا اور ارد گرد کے علاقے میں کوئی بڑی طاقتور ریاست موجود نہ رہی جب بھی اس وقت کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے گا تو اس خطے کی بڑی طاقتوں میں ایران کی ریاست کا بھی تذکرہ لازما کیا جاتا ہے جب کہ اسلام کی آمد سے قبل پارسی مذہب کے ماننے والے موجودہ پاکستان سے لے کر ایران ،افغانستان ،وسطی ایشیا کی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں تک پھیلے ہوئے تھے جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ موجودہ پاکستان کا بیشتر حصہ جس میں صوبہ پنجاب صوبہ سندھ اور بلوچستان بھی شامل ہے کسی زمانے میں ایران کا حصہ تھا یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت اس خطے کے بیشتر علاقوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے موجود تھے جبکہ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اب بھی قدیم ایرانی و پارسی تہذیب کی جھلکیاں مل جائی گی۔(جیسا کہ سندھ اور بلوچستان کے بعض قبائل میں مجرموں کے سچ یا جھوٹ کا پتہ لگانے کے لئے ان کو آگ پر چلایا جاتا ہے بعض محقیقین کا خیال ہے کہ یہ دراصل قدیم پارسی روایات تھی جس کے اثرات اس طرح پاکستان میں باقی رہ گئے ہیں ) مشہور مورخ ہر ٹسلف نے ایرانی مملکت کے مشرقی صوبوں کی جو فہرست بنائی ہے اس کے مطابق ان صوبوں میں مکران، توران گزرگاہ دریائے سندھ کے درمیانی اضلاع اور اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ کاٹھیا واڑ اور مالو ہ (اب یہ صوبے بھارت کا حصہ ہیں )بھی شامل تھے دائیرہ معارف الاسلامی کی جلد نمبر تین کے صفحہ نمبر ۶۲۷ میں جو ایرانی صوبوں کی فہرست دی گئی ہے اس کے مطابق بلوچستان کیچ مکران غور بامیان پنجاب کابلستان خراسان کے صوبے ایرانی حکومت کا حصہ تھے مشہور رزمیہ شاعری و داستان رستم وسہراب کے ہیرو رستم کے جدو امجدکرشاسپ فریدوں اسی کابل زابل اور سجستان کے صوبوں کے گورنر تھے اس کا بھتیجا زال زابل کابل اور ہند پر حکمران تھا4 ایرانی حکومت کے اثرات اس خطے پر قائم ہونے سے قبل موجودہ پاکستان کے تما تر علاقوں میں بسنے والے عوام کا مذہب بنیادی طور پر بدھ مذہب تھا یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ بدھ مذہب نے بنیادی طور پر برہمنوں کی انسانیت کی چار حصوں میں تقسیم کو رد کیا ہے قدیم زمانے میں برہمن ایک علیحدہ قوم کے طور پر برصغیر میں وسط ایشیا سے افغانستان کے راستے آئے تھے جنہوں نے اپنا علیحدہ مذہب رائج کیا تھا جو برہمن مت کے نام سے جانا جاتا تھا اس وقت برہمنوں نے اپنی حکومتی و فوجی ضرورت کے تحت ماتحت علاقوں کو ان چار حصوں میں تقسیم کیا.4.1.1.1 (1)برہمن4.1.1.2 (2) کھتری4.1.1.3 (3) ویش4.1.1.4 (4) شودر5 بنیادی طور پر برہمن چونکہ حکمران تھے اس لئے انہوں نے اپنے آپ کو سب سے آگے رکھا کھتری چونکہ ان کے ہم پلہ تھے ( اور اسی علاقے سے برصغیر میں آئے تھے جہاں سے برہمن بھی آئے تھے اس لئے بعض معاملات میں ان سے بھی آگے اس لئے کھتریوں کو دوسرا درجہ دیا تیسر ے اورچوتھے درجے میں ان اقوام کو رکھا جن کو برہمنوں نے طاقت کے بل پر مغلوب کیا تھا مگر اپنی حکمرانی کی ضرورت کی بنیاد پر کسی کو ویش کہا یہ بات واضح رہے کہ برہمنوں نے ویش ان کو شمار کیا جو کہ اگرچہ رتبہ میں برہمنو ں اور کھتریوں سے کسی بھی طرح سے کم نہیں تھے مگر دیگر کھتریوں کی مانند ساتھ دینے کے بجائے انہوں نے برہمن سماج کا مقابلہ کیا یا برہمنوں کے مذہب کو اختیار کر لینے کے بجائے اپنے مذہب پر قائم رہے جیسا کہ لوہانوں کا معاملہ ہے کہ انہوں نے بدھ مت کی تعلیمات کو اختیار کرے رکھا جب کہ برہمنوں نے ان اقوام کو شودر کا درجہ دے جنہوں نے سخت ترین مزاحمت کی برہمنوں کے نظام ے سامنے سر نہیں جھکایا حتیٰ جنگلوں اور پہاڑوں میں بھی برہمن نظام کے خلاف مزاحمت کرتے رہے اس تقسیم کو مضبوط بنانے کے لئے مذہبی فلسفہ گھڑا گیا مگر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اور وسط ایشیا سے نئے آنے والے فوجی جتھوں اور قبیلوں کی مسلسل آمد کے نتیجے میں برہمن حکمرانوں نے اپنے سیاسی خیالات کو باقائدہ مذہب کی شکل دی برہمن ازم بعد میں آہستہ آہستہ برصغیر کے دیگر بت پرست مذاہب کو اپنے اندر ضم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور پھر ہندو مذہب کے طور پر دنیا کے سامنے ابھر کر سامنے آیا ہے) اس لئے سند ھ کے عوام کی اکثریت انسان دوست ہونے کے ناطے بدھ مذہب کی پیروکار تھی جبکہ بدھ مذہب کی آمد سے قبل یہ خطہ پہلے یونان کا ماتحت تھا پھر بعد میں کسی حد تک یونانی نژاد حکمرانوں کا ماتحت رہا جس کے بعد اس خطے میں بدھ مذہب کے ماننے والوں کی حکومت اشوک اعظم کے دور میں قائم ہوئی جس کا دارلخلافہ ٹیکسلا تھا اشوک اعظم کے دور میں بھیجے گئے بدھ مذہب کے مبلغین کی وجہ سے جلد ہی سند ھ کے علاقے میں بدھ مذہب پھیل گیا( سندھ کی حدود اس وقت یہ نہ تھی جو آج ہیں بلکہ کچھ اور تھیں جن پر روشنی آگے چل کر ڈالی جائے گی ) جس کے نتیجے میں سندھ اور اس کے اطراف میں موجود زیادہ تراقوام کا مذہب بدھ مذہب ہوگیا(اس وقت ہم جس بدھ مذہب کو دیکھتے ہیں اس میں بھی برہمن ازم کی مانند بت پرستی موجود ہے مگر بدھ کی تعلیمات میں ہمیں بت پرستی نہیں ملے گی بلکے توحید پرستی کا نشاندہی مہاتما گوتم بدھ سے منصوب کتابوں میں اس وقت بھی مل جائے گی )6 رفتہ رفتہ برہمنوں کی سازشوں کے نتیجے میں اس خطے سے بدھ مذہب کی حکومتوں کا خاتمہ ہونا شروع ہوا جس کے نتیجے میں تمام برصغیر سے بدھ مذہب کے ماننے والے اقلیتوں میں شمار ہونے لگے حکومتوں کے چھن جانے کے نتیجے میں بدھ مذہب کے ماننے والے کمزور پڑتے چلے گئے جب کے برہمنوں نے اس موقع سے فائدہ اس طرح اٹھایا کہ سازشوں ،زور زبردستی اور طاقت کے بل پر بدھ مذہب کے ماننے والوں کو مغلوب بنانا شروع کیا مگر سندھ برصغیر کے ان خطوں میں سے ایک تھا جہاں بدھ مذہب کے ماننے والوں کی حکمرانی قائم رہی جس کا خاتمہ برہمن راجہ چچ نے دھوکہ کے ساتھ کیا اس وقت سندھ میں مقیم لوہانہ قوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی اکثریت بدھ مذہب کی ماننے والی تھی چچ نامہ اور دیگر کتب میں سندھ کی تاریخ کے حوالے سے رقم ہے کہ بمطابق یکم ہجری ٍ راجہ چچ ( جوہندو تھا) اپنی افواج کے ساتھ اپنی ہمسایہ ریاست بدھیا( یہ بدھ مت کے ماننے والوں کی ریاست تھی اس کا محل وقوع غالبا آج کا شکار پور ، جیکب آباد،اور لاڑکانہ تھا) پہنچا اس ملک کا پایہ تخت ککاراج تھا اور یہاں کے باشندوں کو سویس کہتے تھے اور اس کا حاکم بندر گو بھکشو کا لڑکا گوبند تھا راجہ چچ نے اس ملک کے ایک قلعہ سیوی پر حملہ کرکے فتح کرلیا تو یہ دیکھ کر اس طرف کے دوسرے حکمران کاکا کے لڑکے کتا بجے سنگھ نے خراج ادا کرنے کا اقرار کیا اب راجہ چچ سیوستان پہنچا (جہاں جاٹ قوم آباد تھی) جہاں کے حاکم کا نام سردار مہتہ تھا مقابلہ پر نکلامگر شکست کھا کر قلعہ میں محصور ہو گیا ایک ہفتے کے بعد اس نے اپنا قلعہ چچ کے حوالے کردیا اس کے بعد چچ برہمن آبادپہنچا ( یہ برہمن آباد کی حکومت دراصل بدھ مذہب کے پیروکاروں کی تھی جہاں کا حکمراں اکھم لوہانہ تھا راجہ نے اکھم لوہانہ کی افواج کو شکست دی اکھم لوہانہ مجبور ہو کر برہمن آباد کے قلعے میں محصور ہو گیا جہاں ایک سال تک اسکامحاصر ہ قائم رہا اس دوران اکھم لوہانہ نے اردگرد کی ریاستوں کے حکمرانوں سے مدد بھی مانگی مگر کسی جانب مدد نہ پہنچ پائی اسی دوران اکھم لوہانہ کسی بیماری کے سبب چل بسا اس کی جگہ اس کے بیٹے کو جانشین بنایا گیا آخر چچ نے ایک روز حملہ کرکے اس کو فتح کرلیا لوہانہ کے لڑکے کو اپنا اطاعت گزار بنایا اور اس کی ماں اور کھم لوہانہ کی بیوہ کے ساتھ شادی کرلی اور ایک سال تک برہمن آباد میں مقیم رہا جہاں سے پھر اپنی راجدھانی ارور پہنچا اپنے ساتھ لوہانوں اور جاٹوں کے سربراہوں کو بھی بطور ضمانت لے گیااس کے ساتھ ہی ساتھ مغلوبین کوکنٹرول کرنے کے لئے مندرجہ زیل قوانین کا بھی اجرا کیا جو اسطرح سے تھے۔7 (1)مصنوعی تلوار کے سواکسی قسم کا ہتھیار نہ باندھیں8 (2) قیمتی کپڑے جیسے شال ، ریشم، وغیرہ نہ استعمال کریں بغایت مجبورری صرف سرخ و سیاہ ریشم استعمال کریں9 (3) بغیر زین کے سوار ہوا کریں10 (4) ننگے سر اور ننگے پاؤں رہا کریں11 (5) باہر نکلیں تو اپناکتا ساتھ لے لیں ۔12 (6) جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لایا کریں13 (7)جاسوسی اور رہبری کے فرائیض انجام دیں14 برہمن راجہ چچ کیجانب سے جاری کردہ ان احکامات کا واضح اور صاف مقصد یہ ہی تھا کہ بدھ مذہب کے پیروکار ریاست بدھیا اور ریاست لوہانہ کے بدھ مت کے ماننے والے عوام مغلوب ہوکر برہمنوں کے کنٹرول میں آجائیں اس مقصد کی خاطربرہمن راجہ نے اس طرح کے احکامات جاری کئے برہمنوں کی زیادتی اور ظلم کے نتیجے میں اگر چہ کہ عارضی طور پر بدھ مذہب کے پیروکار سر نگوں ہوگئے تھے مگر وہ موقع کی تلاش میں رہے اور یہ موقع کچھ عشروں کے بعد مل ہی گیا15 710عیسوی یا 92ہجری میں جب چچ کا بیٹا راجہ داہر سند ھ کا حکمران تھا( کہا جاتا ہے کہ راجہ داہر ہندو نہیں بلکہ پارسی ہوگیا تھا جس کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ راجہ داہر نے اپنی بہن کے ساتھ شادی کرلی تھی جس کے حوالے سے ایک باقائدہ داستان تاریخ کی کتابوں کا حصہ ہے سندھ کی ہندو رعایاکا اسلامی افواج کے مقابلے میں راجہ داہر کا ساتھ نہ دینے کا سبب ایک یہ بھی ہے )اس وقت ایشیا سلامی حکومت کے جھنڈے تلے نئے انقلابات سے دوچار تھا سندھ کے پڑوس کی سپر پاور ایران جس کا ہمیشہ ہی سندھ باجگزار رہا تھا اسلامی حکومت کے سامنے ملیا میٹ ہوگئی یہ راجہ داہر کی خود سری نادانی اور حالات سے ناواقفیت تھی کے اس نے اس وقت محض عارضی حالات کو دائمی تصور کرکے اسلامی حکومت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی جس کے نتیجے میں سیلون سے عرب آنے والے تاجروں اور ان کے بیوی بچوں کو راجہ داہر کے اشارے پر گرفتار کرلیا جس کے نتیجے میں عراق کے حکمران حجاج بن یوسف نے ایک اسلامی لشکر جرار حضرت محمد بن قاسم کی قیادت میں تیار کرکے ا ن ڈاکووؤں او ر ان کے سرپرستوں کی سرکوبی کے لئے سندھ روانہ کی حضرت محمد بن قاسم نے مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ سندھ کے حکمران ہندو راجہ داہر کو شکست دی اس طرح اس خطے کی تاریخ میں710عیسوی کا سال اہم ترین قرار پایا جب اسلامی حکومت کا جھنڈہ سندھ کی سرزمین پر لہرایا یہ ایک طویل موضوع ہے بات کو سمیٹتے ہوئے اصل موضوع کی جانب دوبارہ سے آتے ہیں حضرت محمد بن قاسم کے اسلامی لشکر کا مقابلہ اگر چہ کے بعض مقامات پر راجہ داہر کی افواج نے کیا مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سندھ کے عوام کی بڑی اکثریت راجہ داہر کے ساتھ اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے میں اس لئے شریک نہیں تھی کہ راجہ داہر اور اس کی افواج کا تعلق ہندو مذہب سے تھا جب کے سندھ کے عوام کی اکثریت کا مذہب اس وقت بھی بدھ مذہب تھا جس کی اکثریت راجہ داہر اور برہمنوں کے ظلم و ستم کا شکار تھی یہ ہی وجہ ہے کہ جب سندھ مکمل طور پر فتح ہوگیا تو سندھ کے عوام کے مذہب بدھ مذہب کی بنیاد پر علما نے انہیں کافر نہیں جانا بلکہ انہیں اہل زمہ قرار دیا گیا اور اسلامی حکومت میں سندھ کے عوام کا درجہ اہل زمہ تصور کیا گیا جب کہ اسلامی اصولوں کے مطابق بدھ مذہب کے ماننے والوں کو مساوی درجہ دیا گیا جس کے تحت ان کے تمام بنیادی حقوق تسلیم کئے گئے جہاں ان کے حقوق تسلیم کئے گئے وہیں اسلامی حکومت کی زمہ داری بھی یہ قرار پائی کہ ان بدھ مذہب کے ماننے والوں کی جان و مال و آبرو کی حفاظت اسی طرح اسلامی حکومت کی زمہ داری ہے جس طرح سے ایک مسلمان کی جان و مال و آبرو کی حفاظت ا سلامی حکومت کی زمہ داری ہے ان اصولوں اور اسلامی رواداری اسلامی نظام کی برکات دیکھ کر سندھ کے عوام کی اکثریت جو راجہ داہر اور برہمنوں کے ظلم و ستم کا شکار تھی تیزی کے ساتھ اسلام قبول کرنے لگی یہ ہی صورت حال سندھ میں مقیم عشروں سے برہمنوں کے ظلم و ستم کا شکار لوہانوں کی بھی ہوئی16 710عیسوی یا 92ہجری میں سندھ میں اسلامی حکومت کے قائم ہوجانے کے بعد سندھ کے عوام کے اندر اسلام کے قبول کرنے کا سلسلہ تیزی کے ساتھ شروع ہوگیا برہمن آباد اور اس کے ارد گرد مختلف علاقو ں میں مقیم لوہانوں میں رفتہ رفتہ اسلام کے قبول کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا 710عیسوی یا 92ہجری کے تقریبا سو ا سو سال کے بعد 824 عیسوی میں ٹھٹہ میں مقیم لوہانوں کی ایک بہت ہی بڑی بستی میں اسلام کی دعوت عراق کے ایک بزرگ حضرت یوسف قادری کے ذریعے عام ہوئی حضرت یوسف قادری کی جانب سے دی گئی اس دعوت کے نتیجے میں بدھ مذہب کے ماننے والوں لوہانوں کی بڑی تعدا د اسلام کا حلقہ بگوش ہوتی چلی گئی اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام مقامات جہاں پر بدھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت تھی وہ مقامات رفتہ رفتہ اسلام کا قلعہ بنتے چلے گئے لوہانہ قوم کی اکثریت سچے دل کے ساتھ اسلام قبول کرتی چلی گئی اور اپنی مشرکانہ رسومات کو رفتہ رفتہ ترک کرتی چلی گئی ان کے اسلام قبول کرنے کے اثرات ان کے قدیم الا صل مسلمانوں پر بہت اچھے پڑے17 (جاری ہے)
18 حوالہ جات:.
19 تاریخ فیروز شاہی مولف فیروز الدین برنی متر جم ڈاکٹر معین الدین20 تاریخ سندھ علامہ سید سلیمان ندوی21 تاریخ خان جہانی خواجہ نعمت اللہ ہروی ترجمہ ڈاکٹر محمد بشیر حسین22 یوسف زئی افغان اللہ بخش یوسفی23 تاریخ کھتری کھتری حاجی یوسف اللہ رکھا (مترجم)کھتری عصمت اللہ پٹیل24 اعوان تاریخ کے آئینے میں محبت حسین اعوان25 گوتم بدھ راج محل سے جنگل تک کرشن کمار26 جغرافیہ خلافت مشرقی جی لی اسٹرینج27 مہابھارت آر کے نارائین28 بھگوت گیتا کرشن کرپا مورتی29 قدیم ہندوستان ڈی ڈی کوسمبی30 اشوک اعظم ( مرتب) ڈاکٹر حفیظ سید (ابتدائیہ) لالہ جیت رائے31 سکندر اعظم ہیرالڈ لیم (مترجم)غلام رسول مہر32 پراچگان لیفٹنٹ کرنل(ریٹائرڈ) اشرف فیض پراچہ33 مخدوم جہانیاں جہاں گشت محمد ایوب قادری34 تحفت الکرام35 فاہیان کا سفر نامہ مترجم یاسر جواد36 سفر نامہ ابن بطوطہ37 سندھ میں اردو شاعری ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ38 پاکستان میں تہذیب کا ارتقا سبط حسن39 اسلامک انسائکلو پیڈیا سید قام محمود40 تذکرہ (پٹھانوں کی اصلیت اور انکی تاریخ) خان روشن خان41 تذکرہ میمن قوم ہاشم ذکریا42 میمن شخصیات عمر عبدالرحمان43 الحاق جونا گڑھ حبیب لاکھانی44 ماہنامہ سوداگر گولڈن جوبلی نمبر45 Story of A Great Patriot ADAMJEE
تجارتی برادریاں
Subscribe to:
Posts (Atom)
No comments:
Post a Comment