نشان حیدر
نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو کہ اب تک پاک فوج کے دس شہداء کو مل چکا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کی تاریخ اور پاکستان کی بری فوج کے مطابق نشانِ حیدر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام پر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کا لقب حیدر تھا اور ان کی بہادری ضرب المثل ہے۔ یہ نشان صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے، جو وطن کے لئے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہوں۔ آج تک پاکستان میں صرف دس افراد کو نشانِ حیدر دیا گیا ہے جن کے نام درج ذیل ہیں۔
کیپٹن محمد سرور شہید
کیپٹن سرور شہید، 10 نومبر 1910ء کو موضع سنگھوری ، تحصیل گوجر خان ، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ 1944ء میں آرمی کے انجیینر کور میں شامل ہوئے۔ 1946ء میں پنجاب رجمنٹ کی بٹالین میں کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ 1947ء میں ترقی کرکے کپٹن بنا دئیے گئے۔ 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کے سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے ، انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔
یہ 27 جولائی 1948ء کا واقعہ ہے جب انہوں نے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ جب وہ دشمن سے صرف 30 گز کے فاصلے پر پہنچے تو دشمن نے ان پر بھاری مشین گن ، دستی بم اور مارٹر گنوں سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی۔ جوں جوں مجاہدین کی تعداد میں کمی آتی گئی ان کا جوش و جذبہ بڑھتا چلا گیا۔ پھر کپٹن راجا محمد سرور نے ایک توپچی کی گن کو خود سنبھالا اور دشمن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ کپٹن سرور گولیوں کی بارش برساتے ہوئے بہت دور تک نکل گئے۔ اب دشمن کا مورچہ صرف 20 گز کے فاصلے پر تھا ۔ اس موقع پر اچانک انکشاف ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے۔ کپٹن سرور اس غیر متوقع صورت حال سے بالکل ہراساں نہ ہوئے اور برابر دشمن پر فائرنگ کرتے رہے۔ اس دوران میں اپنے ہاتھ سے دستی بم ایسا ٹھیک نشانے پر پھینکا کہ دشمن کی ایک میڈیم مشین گن کے پرزے اڑ گئے مگر اس حملے میں ان کا دایاں بازو شدید زخمی ہوا مگر وہ مسلسل حملے کرتے رہے۔ انہوں نے ایک ایسی برین گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہو چکا تھا چنانچہ اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر چھ ساتھیوں کی مدد سے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پر آخری حملہ کیا ۔ دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کپٹن سرور کی جانب کر دیا ۔ یوں ایک گولی کپٹن سرور کے سینے میں لگی اور انہوں نے وہاں شہادت پائی۔ مجاہدین نے جب انہیں شہید ہوتے دیکھا تو انہوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کر بھاگ گئے۔
میجر طفیل محمد شہید
میجر طفیل محمد شہید (1914 - 7 اگست 1958) پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ فوجی خدمات کے پیش نظر انہیں پاکستان کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔
میجر طفیل کے نام کی مناسبت سے قصبہ روڑالہ روڈ کے نزدیک ایک گاؤں کا نام طفیل شہید رکھا گیا۔
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، پاکستان کے ایک بہادر سپاہی تھے جنہیں 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بہادری پر فوج کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔ آپ ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے۔[1][2]پاکستان بننے سے پہلے آپ پاکستان منتقل ہوئے اور ضلع گجرات کے گاؤں لادیں میں رہائش پذیر ہوئے۔ آپ نے پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی اور 1950 میں پنجاب رجمینٹ میں شامل ہوئے۔
میجر محمد اکرم (1938 – 1971) ضلع گجرات کے ایک گاؤں ڈنگہ میں پیدا ہوۓ۔ وہ پاکستان کے اعوان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کو 1971ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی گئی ہلی کی جنگ میں بہادری کے کارنامے دکھانے پر پاکستان کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔
میجر محمد اکرم شہید
راشد منہاس
راشد منہاس (17 فروری 1951– 20 اگست 1971) پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ 1971ء کی پاک بھارت کی جنگ میں پاک فضایہ میں زیر تربیت پاءیلٹ آفیسر تھے۔[1] اس جنگ میں ان کی بہادری کی وجہ سے انہیں پاکستان کے اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔
میجر شبیر شریف شہید
میجر شیبر شریف شہید 28 اپریل 1943 کو پنجاب کے ضلع گجرات میں ایک قصبے کنجاح میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لاہور کے سینٹ انتھونی سکول سے او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ رہے تھے جب انہیں پاکستان فوجی درسگاہ کاکول سے آرمی میں شمولیت کا اجازت نامہ ملا۔
مرتبۂ شہادت 3 دسمبر 1971 کو وہ سلیمانکی ہیڈ ورکس پر پاکستانی فوج کے لئے ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔
جوان سوار محمد حسین شہید
جوان سوار محمد حسین جنجوعہ شہید 18 جون 1949 کو ضلع راولپنڈی کی تحصیل گجر خان کے ایک گاؤں ڈھوک پیر بخش (جو اب ان کے نام کی مناسبت سے ڈھوک محمد حسین جنجوعہ کے نام سے موسوم کی جا چکی ہے) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 3 ستمبر 1966 کو محض سترہ سال کی کم عمری میں پاک فوج میں بطور ڈرائیور شمولیت اختیار کی اور ڈرائیور ہونے کے باوجود عملی جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔
مرتبۂ شہادت
انہوں نے پاک بھارت جنگ حصہ لیا اور 10 دسمبر 1971 کو شام 4 بجے بھارتی فوج کی مشین گن سے نکلی گولیاں ان کے سینے پر لگیں اور وہ وہیں خالق حقیقی سے جا ملے ۔ ان کی اسی بہادری کے اعتراف میں پاک فوج نے انہیں اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔لانس نائیک محمد محفوظ شہید
لانس نائیک محمد محفوظ شہید ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں پنڈ ملکاں (اب محفوظ آباد) میں 25 اکتوبر 1944 کو پیدا ہوئے اور انہوں نے 25 اکتوبر 1962 کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔
انہوں نے پاک بھارت جنگ حصہ اور بڑی شجاعت اور دلیری سے دشمن کا مقابلہ کیا۔ ان کی اسی بہادری کے اعتراف میں پاک فوج نے انہیں اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔
کیپٹن کرنل شیر خان شہید
کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1970–1999) پاکستان کے صوبہ سرحد کے ضلع صوابی ایک گاؤں نواں کلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1999 میں بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔
حوالدار لالک جان شہید
حوالدار لالک جان شہید (1967–1999) پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں سلسلہ کوہ ہندوکش کی وادی یاسین میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 15 ستمبر 1999 میں بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ کی مادری زبان کھوار تھی لیکن آپ کو بروشسکی اور شینا زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا-
ڈاکٹرعبد القدیر خان محسن پاکستان
عبدالقدیرخان
ہلال امتیاز, نشان امتیاز (دو دفعہ)
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
پیدائش 01 اپریل 1936
بوپھال, مدیہہ پردیش, برطانوی ہندوستان
سکونت اسلام آباد, پاکستان
شہریت پاکستان
قومیت پاکستانی
میدان Metallurgical Engineering
اِدارے یونیرکو گروپ
خان ریسرچ لیبارٹریز
فزیکل ڈاینامک ریسرچ لیبارٹری
غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف انجنیرنگ و ٹیکنالوجی
مادر علمی جامعہ کراچی
ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن
کیتھولک یونورسٹی لیوان
ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی
علمائی مشیر Martin J. Brabers [1]
Other academic advisors بشیر سید
وجہِ معروفیت پاکستان کے ایٹیمی پروگرام
اہم انعامات ہلال امتیاز (14-8-1989)
نشان امتیاز (14-8-1996 اور 23-3-1999)
پیدائش: 1936ء
پاکستانی سائسندان۔پاکستانی ایٹم بم کے خالق۔ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ڈاکٹر قدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان آگئےـڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے مل کر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی ـاس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاءالحق نے تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیںـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھاـ
مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ـڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں ـ انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔
حکیم محمد سعید
حکیم محمد سعید (9 جنوری 1920ء تا 17 اکتوبر 1998ء) ایک مایہ ناز حکیم تھے جنہوں نے اسلامی دنیا اور پاکستان کے لیے اہم خدمات انجام دیں۔ انہوں نے مذہب اور طب و حکمت پر 200 سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونیورسٹی انکے قائم کردہ اہم ادارے ہیں۔
فہرست
ادبی خدمات
حکیم سعید اور بچوں کا ادب
حکیم سعید بچوں اور بچوں کے ادب سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اپنی شہادت تک وہ اپنے ہی شروع کردہ رسالے ہمدرد نونہال سے مکمل طور پر وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نونہال ادب کے نام سے بچوں کیلیے کتب کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں کئی مختلف موضوعات پر کتب شائع کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہترین عالمی ادب کے تراجم بھی شائع کیے جاتے ہیں۔
شہادت
17 اکتوبر 1998ء میں انہیں کراچی میں شہید کر دیا گیا جس کا الزام بعض لوگ MQM پر لگاتے ہیں۔ جس وقت انہیں آرام باغ میں ان کے دواخانہ کے باہر وحشیانہ فائرنگ کرکے قتل کیا گیا وہ روزہ کی حالت میں تھے یوں انہوں نے روزہ کی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ ان کا معمول تھا کہ وہ جس روز مریضوں کو دیکھنے جاتے روزہ رکھتے تھے چونکہ ان کا ایمان تھا کہ صرف دوا وجہ شفاء نہیں ہوتی۔ حکیم محمد سعید پاکستان کے بڑے شہروں میں ہفتہ وار مریضوں کو دیکھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ ان کا ادارہ ھمدرد بھی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کی تمام تر آمدنی ریسرچ اور دیگر فلاحی خدمات پر صرف ہوتی ہیں۔
عبد الستار ایدھی
عبدالستار ایدھی المعروف مولانا ایدھی خدمت خلق کے شعبہ میں پاکستان اور دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں، جو پاکستان میں ایدھی فاونڈیشن کے صدر ہیں۔ ایدھی فاونڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی، بلقیس ایدھی فاونڈیشن کی سربراہ ہیں۔ دونوں کو 1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسےسے ایوارڈ (Ramon Magsaysay Award) سے نوازا گیا۔
فہرست
ابتدائی حالات
مولانا ایدھی 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد کپڑا کے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کی چھوٹے چھٹوے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں انکو سکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی تھا۔ آغاز
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوۓ۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنہوں نے ان کو طبی امداد کی بنیادات سکھائیں۔ اسکے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگواۓ اور مفت مدافعتی ادویہ فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوۓ باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے سکول کھول لیا، اور یہی ایدھی فاونڈیشن کا آغاز تھا۔ایدھی فاونڈیشن کی ترقی
آنے والوں سالوں میں ایدھی فاونڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاونڈیشن کے پاس 600 سے زیادہ ایمبولینسیں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں امداد کے لیے وہ خود روانہ ہوتے ہیں اور ایدھی فاونڈیشن کی حادثات پر ردعمل میں کی رفتار اور خدمات میونسپل کی خدمات سے کہیں زیادہ تیز اور بہتر ہے۔ ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاونڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اسکو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاونڈیشن
فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاونڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بزات خود متاثرہ ممالک میں جا کر کرتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے چند نام افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔16 اگست 2006ء کو بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی کی جانب سے ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا گیا۔ جس کے تحت دنیا کے امیریاغریب ہویا دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ، یو کے، اسرائیل، شام، ایران، بھارت، بنگلہ دیش ہوں میں یہ ایمبولینس بطور عطیہ دی جا رہی ہے اورانہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال تک استعمال کرنے کے بعد فروخت کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال کریں۔بیگم بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی نے اس موقعہ پر کہا کہ وہ دنیا کاامیر یاغریب ملک ہووہاں مریض مریض ہی ہوتا ہے ایمبولینس کامقصد انسانوں کی جانیں بچانا ہوتا ہے اور ہمیں اس بات کی خوشی ہوگی کہ ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کی ایمبولینسیں دنیا بھرمیں انسانوں کی جانیں بچائیں خواہ وہ لندن، نیویارک، ٹوکیو، تل ابیب، بیروت اوردمشق ہوں انہوں نے کہا کہ انسانیت کی بین الاقوامی خدمت کے حوالے سے ہمارا ایک قدم اورآگے بڑھ رہا ہے۔ جدید میراث
آج پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی ایدھی نے ایک غیر خود غرض اور محترم شخص کے طور شہرت پائی ہے۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روائتی پاکستانی لباس پہنتے ہیں، جو صرف ایک یا دو انکی میلکیت ہیں، اسکے علاوہ انکی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا ہے، جسکو وہ سابقہ بیس سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاونڈیشن کا بجٹ ایک کروڑ کا ہے جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرتے۔ آپ کے بیٹے فیصل بتاتے ہیں، جب افغانستان میں مرکز کا افتتا ح کیا جا رہا تھا تو عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب ایدھی وہاں آۓ تو وہ اس بات پر سخت خفا ہوۓ، کونکہ انکے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ اس رات آپ کلینک کے فرش پر ایمبولینسوں کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوۓ۔ ایدھی فاونڈیشن کا مستقبل
آج ایدھی فاونڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ایدھی مستقبل کی طرف دیکھتے ہوۓ کہتے ہیں، وہ پاکستان کے ہر 500 کلو میٹر پر ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ گرچہ انکو احترام کے طور پر مولانا کا لقب دیا گیا ہے لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے کبھی کسی مذہبی سکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوانا پسند کرتے ہیں، کیونکہ انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹلریشن سے ڈاکٹری کی اعزازی سند دی گئی ہے۔ وہ اس بات کو بھی سخت ناپسند کرتے ہیں جب لوگ انکی یا انکے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ حکومت یا سابقہ مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے۔ ضیاءالحق اور اطالوی حکومت کی امداد انہوں نے اسی خیال سے واپس کر دی تھی۔1996ء میں انکی خودنوشت سوانح حیات شائع ہوئی۔1997ء گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ایدھی بذات خود بغیر چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ اور ریکارڈ بننے کے بعد بھی ابھی تک انہوں نے چھٹی نہیں لی۔ اعزازات
- 1988ء لینن امن انعام (Lenin Peace Prize)
- 1986ء عوامی خدمات میں رامون مگسےسے اعزاز (Ramon Magsaysay Award)
- 1992ء پال ہیریس فیلو روٹری انٹرنیشنل فاونڈیشن (Paul Harris Fellow Rotary International Foundation)
- 2000ء انسانیت، امن اور بھائی چارے کا انٹرنیشنل بالزن اعزاز (International Balzan Prize)
- 26 مارچ 2005ء عالمی میمن تنظیم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز (Life Time Achievement Award)
میرخلیل الرحمٰن
میر خلیل الرحمٰن جنگ گروپ آف نیوز پیپر کے بانی تھے وہ 1927 کو ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے جو کہ ہجرت کرکے گوجرانوالہ میں منتقل ہوچکا تھا۔ ان کے والد میر عبدالعزیز تھے جو تعلیم کے حصول کے لئے علی گڑھ گئے تھے۔ دادا امیرجان محمد ایک تاجر تھے۔ میر عبدالعزیز نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دلی میں ملازمت اختیار کرلی اور اپنے پورے خاندان کو بھی بلوالیا۔ ابھی میر خلیل الرحمٰن ابتدائی برسوں میں ہی تھے ان کے والد میر عبدالعزیز کا انتقال ہوگیا۔
میر خلیل الرحمٰن نے اپنی اخباری زندگی کا آغاز ایک ہاکر سے کیا، انہوں نے جلد ہی اخباری مالکان سے تعلقات قائم کرلئے۔ اس دوران انہیں اپنا اخبار شائع کرنے کا خیال آیا۔ انہوں نے سرمائے کی عدم دسیابی کے باوجود جنگ کے نام سے 1941 میں دلی سے ایک شام کا اخبار شائع کیا۔ وہ جنگ عظیم دوئم کا ذمانہ تھا۔ انہوں نے اس دوران جنگ عظیم کے علاوہ جدوجہد آزادی کو بھی خبروں میں نمایا مقام دیا۔ غالبا اخبار کا نام بھی ان ہی حالات کی مناسبت سے جنگ رکھا گیا ہوگا۔ اخبار کی قیمت صرف ایک پیسہ تھی۔ میر خلیل الرحمٰن کے بقول اخبار کی فروخت سے جو رقم ملتی تھی اسی سے دوسرے روز کے اخبار کا کاغز خریدا جاتا۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پورے خاندان سمیت پاکستان ہجرت کی اور کراچی کے برنس روڈ پر ایک چھوٹا سا کمرہ لے کر 15 اکتوبر 1947 کوروزنامہ جنگ اخبار کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہ وہ دن تھے جب جنگ شام کا اخبار تھا۔ جلد ہی جنگ اخبار نے کامیابیاں حاصل کرنا شروع کردیں۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں میر خلیل الرحمٰن نے اخبار کے لئے سخت محنت کی وہ خودہ پریس کانفرنس میں بھی جاتے اور دیگر امور بھی انجام دیتے۔ انہوں نے کتابت بھی سیکھ رکھی اگر کاتب کو تاخیر ہوتی وہ ہنگامی حالت میں خود ہی کتابت بھی کرلیتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں صحافت کو نئی جہت دی اور ہمیشہ نئی ٹیکنالوجی درآمد کرنے میں پہل کی۔ کمپیوٹر کی نوری نستعلیق کتابت بھی انہوں نے پاکستان کے ایک نامور کاتب اور برطانیہ کی ایک کمپنی کے ساتھ مل کر بنوائی تھی اور اس کتابت کا پہلا اخبار لاہور سے شائع کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتداء میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ شاید قارئیں نئی کمپیوٹر کتابت کو پسند نہ کریں مگر لاہور میں اخبار کے نئے انداز بہت پسند کیا گیا اور آج یہ تقریبا ہر اخبار میں رائج ہے۔
صحافیوں کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں میر خلیل الرحمٰن نے آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خبر پر کہا تھا کہ میری زندگی کی سب سے بڑی خبر قیام پاکستان کا اعلان تھا اور میری زندگی کی سب سے بُری خبر سقوط مشرقی پاکستان تھا، اس خبر نے مجھ پر سکتہ طاری کردیا اور دل ڈوبنے لگا، یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے نہ اس وقت میرے پاس الفاظ تھے اور نہ اب ہیں۔
میر خلیل الرحمٰن نقادوں کی نظر میں
تنقید کرنے والوں کے مطابق میر صاحب نے پاکستان میں زرد صحافت کو فروغ دیا۔ وہ ہر حکمران کے منظور نظر رہے اورکبھی بھی عوام کی ترجمانی نہیں کی۔ ان کا ایک قول بہت مشہور ہے کہ جنگ اخبار کی پالیسی یہ ہے کہ اس کی کوی پالیسی نہیں۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ صحافت کو کاروبار بنانے کا سہرا بھی میر صاحب کے سر جاتا ہے جس نے پاکستانی صحافت کو آج تک اصولوں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ جنگ اخبار نے کبھی بھی اصولوں کی خاطر قربانیاں نہیں دیں۔ جبکہ دیگر اخبارات پابندیوں کی زد میں آتے رہے۔ یہ مضمون جامعہ کراچی مغربی پاکستان کے تدریسی شعبہ 'ابلاغیات‘ کے 'جرنلسٹس‘ کے 'جنگ نمبر‘ کے لئے اردو کے ممتاز ادیب اور نقاد مرحوم شمیم احمد نے تحریر کیا تھا جو بعض وجوہات کی بناءپر شائع نہ ہو سکا تھا۔ مجلہ 'ساحل‘ کراچی نے اس مضمون کو جولائی 2006ءکی اشاعت میں شائع کیا تھا۔ معاشرے جب عروج اور ارتفاع کی طرف گامزن ہوتے ہیں تو اس کی وجہ وہ استعداد ہوتی ہے جو انہوں نے ماضی میں حاصل کی ہوتی ہے۔ اِسی طرح زوال اور پستی سے پہلے، فکر اور خیال کے سوتے خشک ہوتے ہیں۔ اعلیٰ قدروں سے پہلو تہی، نفس پرستی اور بے عملی زوال پذیر معاشرے کی نمایاں صفات ہوتی ہیں ہم اپنے وجدان سے اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ عروج وزوال فطری یا طبعی اصول کے تابع ہیں مگر کوئی معاشرہ کب دو میں سے کسی ایک راہ پر چل پڑتا ہے۔ انسان کی دانش ابھی اسے دریافت نہیں کر پائی ہے۔ ہاں زوال کے دوران میں اگر معاشرے میں اپنے تصور حیات سے کسی نہ کسی سطح پر حقیقی تعلق باقی رہتا ہے تو پھر ایسے معاشرے میں نسبتاً جلد وہ قوت پیدا کی جا سکتی ہے جو عروج اور ارتفاع کی سمت معاشرے کو لے جاتی ہے۔ اعلیٰ اقدار سے انحراف کے خطرناک اثرات: معاشرے میں اعلیٰ قدروں کی ترویج یا ان سے انحراف معاشرے میں جلد ہی اپنے اثرات پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ بھی ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں اُس کی تشکیل کے ساتھ ہی زوال کے عوامل پیدا ہو گئے۔ اس معاشرے کا ایک فرد کی حیثیت سے میں تحریک پاکستان کی کامیابی سے لے کر زوال کے عوامل تک کے اپنے مشاہدات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ پاکستانی معاشرے کی تباہی میں "جنگ" کا پچاس فیصد حصہ: پاکستانی معاشرے کی تباہی میں جتنا کردار جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ان کی محافظ نوکر شاہی اور اقتدار پسند فوج کا رہا ہے اتنا ہی ہمارے ایک اکیلے اخبار روزنامہ جنگ کا ہے۔ میں کسی مبالغے سے کام نہیں لے رہا۔ 'جنگ‘ نے محض اپنی ذاتی مفاد کیلئے ہر اُس قدر کو پامال کیا جو ایک نوتعمیر معاشرے کی بنیاد مضبوط کر سکتی تھی۔ قربانیاں ہماری روایت نہیں: روزنامہ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمان کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کا اخبار قربانی کے فلسفے پر پورا نہیں اترتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کسی پارٹی کا نمائندہ اخبار بھی نہیں ہے جو اپنے نصب العین کیلئے نقصان اٹھانا برداشت کر لیتے ہیں۔ بھٹو دور میں جب مخالف صحافیوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی تھی تو ہڑتالیوں کی حالت زار دیکھ کر میر خلیل الرحمان نے کہا تھا، بیشک آپ مشنری لوگ ہیں۔ آپ کا اخبار کاغذ کے پرزے پر بھی بک جائے گا۔ روزنامہ جنگ پر اگر کوئی ایسی افتاد پڑے تو اس کو دوسرے دن پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ انہوںنے بارہا کہا کہ 'جنگ‘ ایک کمرشل اخبار ہے۔ اس سے آپ 'زمیندار‘ والی یا 'کامریڈ‘ والی کسی قربانی اور ایثار کی توقع نہ رکھئیے۔ ان بیانات میں کسی قسم کی شرمندگی کے بغیر جو نیم فخریہ انداز اخبار کے کمرشل ہونے پر موجود ہے اُسی نے 'جنگ‘ کو ابتداءسے پاکستان کی سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی تباہی میں 'قابل فخر‘ کردار انجام دینے کے قابل بنا دیا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل انجام اور جنگ کا موازنہ: اخبار 'انجام‘ کو مسلم لیگ کا آرگن ہونے میں وہ اعزاز حاصل نہیں تھا جو اخبار 'منشور‘ کو حاصل تھا، مگر شہرت میں انجام منشور سے آگے تھا۔ انہیں دنوں میر خلیل الرحمان نے سید محمد تقی صاحب کی زیرادارت 'جنگ‘ کا آغاز کیا مگر قیام پاکستان تک 'جنگ‘ دہلی میں مقبول نہیں ہو سکا تھا اور نہ ہی مدیران اخبار کی نیتوں سے پردہ اٹھا تھا۔ سنسنی خیزی اور عوام کے جذبات سے کھیلنا اور اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے روزنامہ 'جنگ‘ 'انجام‘ جیسے بھاری قدیم اخبار کا وقار نہیں گرا سکا تھا۔ البتہ نیم خواندہ یا نچلے طبقوں میں وہ اس طرح اپیل کرتا تھا جس طرح کراچی میں شام کا اخبار 'نئی روشنی‘ کسی زمانے میں کیا کرتا تھا۔ جرم وسزا کی خبریں نمایاں کرنا، نیم برہنہ عورتوں کی تصویروں کی نمائش کرکے ظاہر ہے روزنامہ 'جنگ‘ کسی سیاسی یا تہذیبی تربیت کا فریضہ انجام نہیں دے رہا تھا۔ اُس وقت 'جنگ‘ کی یہی حیثیت تھی۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی کی صحافت کا منظر: تقسیم ہند کے بعد ڈان، انجام اور جنگ کراچی منتقل ہو گئے، ابھی تک ہر اخبار کا محدود طبقہ برقرار تھا، یہاں بھی 'انجام‘ سب سے مقبول اخبار بنا رہا، عثمان آزاد اِس بات کا ادراک نہ کر سکے کہ روزنامہ جنگ اب اپنی سرزمین سے شائع ہو رہا ہے۔ دلی والے ہتھکنڈے کراچی کی فضا میں برگ وبار لانے لگے، البتہ قوم کو سنجیدہ صحافت سے روشناس کرانا یہاں بھی جنگ کا مطمح نظر نہیں تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے ابتدائی زمانے میں لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے سیاسی تناظر، کشمیر کے مسئلے، نئی سرحدوں اور دریاؤں کی تقسیم کے نہایت اہم معاملات کے ساتھ بین الاقومی سطح پر ایک خاص انداز کی گروہ بندیوں میں 'جنگ‘ نے تمام اخبارات کے مقابلے پر سب سے زیادہ سیاسی استحصال کیا اور اپنے عوام میں کبھی وہ شعور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جو ایک حقیقی صحافت کا فرض ہوتا ہے۔ چڑھتے سورج کے ساتھ موضوعات بدل دینا 'جنگ‘ کی صحافت کا بڑا وصف تھا۔ بحران کی صورت میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کی بجائے اپنی اشاعت کو بڑھانا اور حقائق سے پردہ نہ اٹھانا 'جنگ‘ کی پالیسی تھی، اس کے نتیجے میں غلام محمد جیسے افراد اقتدار میں آئے، فوج کو مداخلت کا موقع فراہم ہوا اور بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔ ملک کی تباہی میں 'جنگ‘ کی ترقی کا سامان وافر تھا، 'جنگ‘ کے اثاثے لاکھوں سے کروڑوں میں ہو گئے تھے۔ اخبار انجام کو شکست دینے کیلئے سنسنی خیز مواد، جنسی اور جرائم پر مبنی کہانیاں اور عورت کا جسم اخبار کی مستقل خصوصیت بنا رہا۔ نظریاتی اور دینی پس منظرکا احساس وہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا تھا۔ مس جین کی کہانی لوگوں کو اب بھی یاد ہوگی۔ یہ بے ہودگی اس سے پہلے کسی اخبار کی زینت نہیں بنی تھی۔ 'جنسی عمل کا دورانیہ‘ شہ سرخی کے ساتھ دینا، فلمی دُنیا کے اسکینڈل، لوگوں کیلئے موضوع سخن بنا دینا، 'جنگ‘ کو اس میں یدطولی حاصل تھا۔ 'جنگ‘ کی دیکھا دیکھی اخبار انجام نے بھی یہی روش اپنانے کی کوشش کی مگر ایک تو اس کا مزاج ایسا نہیں تھا دوسرے دلی سے کراچی منتقلی کی وجہ سے اُس کے وسائل بھی کم تھے تیسرا 'جنگ‘ نے ایک اور گھٹیا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ جن کے ہاں 'انجام‘ باقاعدگی سے آتا تھا وہاں صبح سویرے ہاکر جو اخبار پھینک جاتا وہ 'جنگ‘ ہوتا، ہاکر سے تڑکے تڑکے ملنا کوئی آسان نہیں تھا مہینے کے آخر میں حساب کرنا تھا، ہاکر نے کہا کہ 'انجام‘ ہم کو ملتا ہی نہیں، نیوز ایجنسی جا کر معلوم ہوا کہ 'انجام‘ وقت پرنہیںپہنچ پاتا۔ا یسی بدنظمی کا شکار'انجام‘نہیںہو سکتا تھا۔ ہاکر، نیوز ایجنسی اور حکام کے ساتھ ملی بھگت کے علاوہ جنگ نے اپنی ذاتی نیوز ایجنسیاں بھی قائم کر لی تھیں۔ عثمان آزاد کو الگ بدنام کرنے کی مہم چل نکلی تھی، بازار سے 'انجام‘ کے بنڈل کے بنڈل خرید کر نذر آتش کر دیے جاتے۔ یہی کھیل اقتدار کی سطح پر حکمران طبقہ بھی کر رہا تھامعاشرے کی اقدار داؤ پر لگی تھیں۔'انجام‘ اپنے انجام کو پہنچا۔ جنگ کا ہدف اب کل پاکستان میں مونوپولی پیدا کرنا تھا، اخبار 'حریت‘ کے فخر ماتری نے ہاکرز کی انفرادی ٹیم کے ذریعے اپنے اخبار کو بروقت پہنچانے کا اہتمام کیا۔ طباعت کے معیار میں بھی 'حریت‘ 'جنگ‘ سے کہیں بہتر تھا مگر قومی ذمہ داری سے نچنت ذہنیت والے کثیر سرمایہ اور سیاسی اثر ونفوذ والے 'جنگ‘ کا وہ مقابلہ نہ کر سکے۔ جنگ والے اپنی کامیابی کے یہ اسباب بتاتے ہیں۔ 'جنگ‘ صرف اخبار ہے۔ ہر خبر اور اسکینڈل کو غیر جانب داری سے پیش کرنا ہماری صحافتی ذمہ داری ہے۔ 'جنگ‘ جو پیش کرتا ہے وہی عوام کی خواہش ہے تبھی تو 'جنگ‘ سب سے زیادہ فروخت ہونے والا روزنامہ ہے۔ ہر طبقے کیلئے مواد بہم پہنچانا، جنگ کی مقبولیت کا سبب ہے۔ معاملہ ایسا سیدھا سادھا نہیں ہے۔ 'جنگ‘ سے پہلے ہندستان میں سنجیدہ اخبار کیوں مقبول تھے۔ کیا شہرت اور سرمایہ کا آجانا بذات خود کوئی قابل فخر بات ہے۔ قوم فروشی اور ملک فروشی تک آپ کے اخبار میں وہ سنسنی نہیں پھیلاتے جو محلے اور سینما کی سطح پر ہونے والے معمولی واقعات پھیلاتے ہیں۔ اتنے ہمہ گیر واقعات سے چشم پوشی بھی صحافتی ذمہ داری ہے؟ 'جنگ‘ کا اصول یہ رہا ہے کہ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس"۔ غلام محمد جیسے سازشی بیورو کریٹ یا ایک فوجی اقتدار پسند نے تحریک آزادی کے تمام خوابوں کو ملیامیٹ کرکے اور تحریک پاکستان کے تمام اصولوں کو روند کر اور ان پڑھ مسلمان عوام کی اکثریت کی خواہشات کو دھوکہ دے کر جس طرح پاکستان پر قبضہ جما لیا تھا آپ ان کی کامیابی کو پاکستانی عوام کی خواہشات کا نتیجہ یا ان مفاد پرستوں کو پاکستان کے مخلص لیڈروں کے مقابلے پر ہم انہیں اقتدار کا اصل حق دار اور انہیں آئیڈیل حکمران یا پاکستانی معاشرے پر حکومت کا بہترین نمونہ کیسے قرار دینے لگیں! عملاً یہی ہوا ہے، مگر 'جنگ‘ کی تمام کوششوں کے باوجود پاکستان کے عوام اب بھی اسلام کو ہی پسند کرتے ہیں، غلام محمد، جنرل ایوب خان، سکندر مرزا، یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو بانی پاکستان پر کون ترجیح دیتا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان میں مسلم لیگ کی پالیسی کے سنگ 'جنگ‘ کون سے عوام کی خواہشات پوری کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد عوام کی شرافت کہاں چلی گئی تھی؟ ہندوستان میں موجود دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی نے اپنے دین کیلئے جو جدوجہد کی تھی اور جسے اُس وقت 'جنگ‘ بھی مہمیز دیتا تھا وہ اب مضحکہ خیز ہی نہیں بن گئی بلکہ 'جنگ‘ شاید ایسی جدوجہد کو بطور اصل اصول کے تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں ہے، و ہ اُسے بے شعوری کی حالت پر محمول کرتے ہیں۔ کیا اس اصول کو بنیاد تسلیم نہ کرکے تقسیم ہند کیلئے کوئی اور دلیل پیش کی جا سکتی ہے؟ جنگ جو اس وقت مسلمانوں کی نمائندگی کا دعوے دار تھا ___ وہ مسلمان جو ایک نظریہ حیات کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے ایک خطے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ___ وہ اخبار اب غیر جانبداری پر فخر کس منہ سے کر سکتا ہے۔ تحریک کی ناؤ کنارے لگی تو بجائے اصل نظریے کو فروغ دینے کے 'جنگ‘ نے سنسنی خیزی، جرائم پیشگی، عورت کے استحصال، نظریہ پاکستان کی بیخ کنی، سیاست میں جذباتیت کا گھناؤنا کاروبار، ارباب اقتدار کی خوشامد، حکام کی کاسہ لیسی، قومی امور میں بے بصیرت تجزیہ نگاری، فرقہ پرستی سے نسل پرستی تک ہر گھناؤنا عمل محض اپنی مفاد پرستی کیلئے انجام دیا۔ خیر نظریہ حیات اور اصول پرستی سے 'جنگ‘ کو کیا واسطہ، خالص پیشہ ورانہ مغربی صحافت کے معیار پر 'جنگ‘ کو پرکھ لیتے ہیں۔ مغربی پریس کو بھی آپ بامقصد معاشرے کو تعمیر کرنے، قوم کی ترقی اور تہذیب وشائستگی اور بااصول قوم بنانے کے عمل سے خارج نہیں کر سکتے۔ 'جنگ‘ کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ لندن کے معاشرے کو ایک مہذب قوم بنانے میں اسپیکٹیٹر، ٹیٹلر اور لندن پنچ نے کیا کیا خدمات انجام دی ہیں۔ان اخبارات نے انگلینڈ میں جو قوم بنائی تھی سیاسی زوال اور سماجی انحطاط کے باوجود انفرادی اخلاقیات سے لے کر اجتماعی بہبود تک وہ آج بھی بہت سے معاشروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ انگریز نے تو غلامی سے آزاد بھی نہیں ہونا تھا، نظریاتی ریاست قائم کرنا بھی ان اخبارات کے پیش نظر نہیں تھا پھر بھی انہوں نے بلند خیال اور اعلیٰ قدروں کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا، ایک ایسا معاشرہ جس پر اچانک اپنے نظریے کو ثابت کرنے کی ذمہ داری آن پڑی تھی، اُس کی تہذیب اور تربیت کیلئے اخبارات کا کیا فریضہ بنتا تھا۔ 'جنگ‘ والے اس کا جواب کبھی نہیں دے سکتے۔ ہندوستان میں بھی اُردو صحافت انگریزوں کی لائی ہوئی صحافت سے پیدا ہوئی تھی، اُردو صحافت کی تاریخ سے تو میر خلیل الرحمان شناسا ہوں گے۔ سرسید کا 'تہذیب الاخلاق‘ اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر کے تتبع میں جاری ہوا تھا۔ لکھنؤ میں 'اودھ پنچ‘ کے سامنے لندن پنچ کا نمونہ تھا۔ منشی سجاد حسین اکبر الہ آبادی جیسے اصلاح کاروں کو ہندوستان میں اُردو صحافت نے پیدا کیا تھا۔ اودھ اخبار اور اودھ پنچ نے نہ صرف دانشوروں کی کھیپ پیدا کی جنہوں نے مسلمانوں کے قومی شعور کی تعمیر وترقی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب، اخلاقیات، تاریخ، تہذیب اور معاشرت کی بہترین اقدار کی آبیاری کی اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیق کار بھی تھے۔ ان اخبارات کی بدولت جدید ادبی اصناف متعارف ہوئیں۔ ناول نگاری، افسانہ نگاری، تنقید، مضمون نگاری، نظم اور طنز ومزاح۔ اُس دور کو بیسیویں صدی کا سب سے اہم اُردو ادبی دور مانا جاتا ہے۔ ہمارا مشرقی معاشرہ کب واہیات کا خوگر رہا ہے! اُردو صحافت کا مسلم نشاۃ ثانیہ میں کردار: اُردو صحافت نے بیسویں صدی میں زندہ اور بیدار قومی شعور پیدا کیا تھا۔ سیاسی اور قومی قیادت اخبارات کرتے تھے، ہمیں آزادی کی جنگ لڑنے والی قوم 'جنگ‘ نے نہیں بنایا تھا نہ جنگ میں وہ سوز ہے اور نہ وہ جگر داری۔ کیا الہلال، البلاغ، کامریڈ، ہمدرد اور زمیندار کی خدمات بھلائی جا سکتی ہیں۔ حالی، شبلی، اکبر الہ آبادی، سجاد حسین، عبدالحلیم شرر، اقبال، حسرت موہانی، اسماعیل میرٹھی، مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، علامہ مشرقی، سلیمان ندوی، ابوالاعلی مودودی اور مولانا ظفر علی خان جیسے دیانت دار اور جگر پاش شخصیات نے جو ادب تخلیق کیا تھا وہ سب عوام کی خواہشات کے برخلاف فروغ پا گیا تھا! جہاں ملک کا ایک بازو کٹ گیا ہو اور دوسرا لہو لہو ہو، غربت کا گراف روز بروز بڑھ رہا ہو، وہاں اخبار کے مالکان لکھ پتی سے کروڑ پتی بن جائیں تو ایسی صحافت کو کیا کہیے گا! یقینا اسے ایک نئی قوم اور نئی مملکت کو اپنے کرتوتوں، ذہنیت اور بداعمالیوں کی چاٹ کی بھینٹ چڑھا کر بانسری بجانے کے عمل سے ہی موسوم کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے معصوم، بھولے بھالے اور ناخواندہ عوام جس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے، تحریک پاکستان کا کردار بنے تھے ان کی کردار سازی میں 'جنگ‘ کا بھی کوئی کردار ہے!؟ میر خلیل الرحمان اگر زندہ ہوتے تو اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔ مس ڈولنگر کی ننگی ٹانگوں سے لے کر پرتعیش فاحشاؤں کے چٹخارے دار داستانوں تک اور ہر قسم کی بدکرداری میں مبتلا کرکے اپنی قوم میں کسی قسم کا قومی اور سیاسی شعور بیدار نہ ہونے دینا، مغربی صحافت کا امتیاز کب رہا ہے، اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ 'جنگ‘ ایک مغربی طرز کا حامل اخبار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد تقریباً پانچ سال تک قوم اپنے نصب العین سے غافل نہیں ہوئی تھی، تحریک پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے، وہ اس انتظار میں رہے کہ کب ان سے کئے گئے وعدے پورے ہوتے ہیں، سیاست دانوں سے مایوس ہو کر ایوب خان کے مارشل لاءسے ان کی امید بندھی، ناامید ہو کر آخر قوم نے حالات کے دھارے پر اپنے مقدر کی ناؤ رکھ دی۔ امید وبیم کے اِن پانچ برسوں میں 'جنگ‘ نے عوام کی خواہشات کا کتنا پاس لحاظ رکھا تھا۔ حالات سے قوم کو باخبر رکھنے میں کتنے جتن کئے، قومی اخبار تو کیا عام روزنامہ بھی اپنے آپ کو اس فریضے سے لاتعلق نہیں رکھ سکتا۔ 'جنگ‘ نے ان دنوں جو بویا تھا قوم اُسے آج کاٹ رہی ہے۔ 'جنگ‘ نے صرف سیاسی حالات اور اقتدار کی سازشوں سے ہی عوام کو بے خبر نہیں رکھا، ناپاک اور بدطینت حکمرانوں کو اقتدار کے آخری لمحوں تک خوش کرنا اور ان کی سبکدوشی یا جلاوطنی کے بعد ان کی پشت پر ایک لات لگا، اس سے بدتر حکمرانوں کی کاسہ لیسی کرنا، علاوہ اس کے رشوت دے کر نیوز پرنٹ کے حصول کیلئے جھوٹے دعوے داخل کرنا اور پھر انہیں بلیک میں فروخت کرکے نفع کمانا بھی 'جنگ‘ کو ایک صنعت بنانے کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اس مجرمانہ عمل کا آغاز سب سے پہلے 'جنگ‘ ہی نے کیا تھا۔ فلمی اداکاراؤں کو نوجوانوں کیلئے آئیڈیل بنانے کا فریضہ بھی سب سے پہلے 'جنگ‘ نے انجام دیا ہے۔ جنگ سے پہلے اُردو صحافت میں اس کی نظیر نہیں ڈھونڈی جا سکتی۔ اخبارات کو اس بُرائی میں مبتلا کرنے کا اعزاز 'جنگ‘ کو حاصل ہے۔ کم از کم 1960ءتک پنجاب کی صحافت اس گندگی سے پاک تھی جس کے تراکم سے کراچی میں سرانڈ پیدا ہو گئی تھی۔ میر خلیل الرحمان ابتداءمیں کئی سال تک مجالس یا قومی فورموں کو اپنی سرپرستی سے رونق افروز نہیں کرتے تھے۔ جب جھجک جاتی رہی تو کہا کرتے تھے، صاحب وہ زمانہ اور ہی تھا جب اخبار واقعتا جہاد کرتے تھے۔ میر صاحب زمیندار تو قیام پاکستان کے بعد بھی نکلتا رہا تھا، اسی سے آپ حوصلہ پا لیتے! پاکستان کے تمام طبقات کی ضروریات کا خیال بھی 'جنگ‘ نے خوب کیا ہے۔ سفلی صحافت کی وجہ سے 'جنگ‘ پر سخت تنقید ہوئی تو اپنی منافقانہ روش اور اسلام دشمنی کے تاثر کو کم کرنے کیلئے بہت بعد میں مذہبی ایڈیشن کا اضافہ کیا گیا۔ بے ضرر سطحی معلومات پر مبنی ایڈیشن کے ساتھ ہی نیم عریاں تصاویر 'جنگ‘ کے مذہبی طبقے کی نمائندگی کی چغلی کھا رہی ہوتی تھیں۔ 'جنگ‘ کے ایک مذہبی کالم نگار شیر فروشی کے ساتھ ملت فروشی کا کام بھی کرتے تھے اور دوسرے کالم نگار محض قرآن مجید کا ترجمہ شائع کرکے اسلامی نظریہ حیات کی خدمت کرتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسلامیات کا پرچہ دینے والے طالب علم جو ایک مشکل سے دو چار تھے۔ پہلے وہ آیات اور ان کا ترجمہ خود لکھ کر امتحانی ہال میں آتے تھے، 'جنگ‘ نے ان کی یہ مشکل آسان کردی تھی۔ شروع میں میر خلیل الرحمان نے مسلم لیگی قبا پہن کر صحافت میں قدم رکھا تھا، سرمایہ دار بننے کے عمل میں آج تک کوئی یہ نہ جان سکا کہ اُن کے عقائد کیا تھے۔ ذاتی طور پر وہ کمیونسٹ تھے نہ دہریے۔ البتہ ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جنگ کے مستقل اور بنیادی کالم نگار ہمیشہ ترقی پسند یا سوشلسٹ رہے ہیں۔ مرزا جمیل الدین عالی کو چھوڑ کر ابراہیم جلیس، ابن انشائ، احمد ندیم قاسمی اور انعام درانی سب سکہ بند بائیں بازو کے ادیب ہیں۔ مہمان کالم نگار جو بائیں بازو سے تعلق نہیں رکھتے تھے، پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل ہوتے تھے، اس لئے ان کا کالم دینا 'جنگ‘ کی مجبوری بن گئی تھی۔ جس قوت نے پاکستان بنوایا تھا وہاں ترقی پسند تحریک زیادہ نہ چل سکی مگر یہ اعزاز روزنامہ 'جنگ‘ کو حاصل ہے کہ مسلم لیگ کی سیاست کو اپنا کر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کرنے والے اخبار کے تمام مستقل کالم نگار بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ ترقی پسند ہونے کی وجہ سے اگر انہیں کوئی نظریاتی لوگ سمجھتا تھا تو جنگ سے وابستگی نے اُسے بھی داغدار کردیا تھا۔ خدا جانے مسلم اُمہ کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، اسپین ہو یا سمرقند بخارا ہو یا بغداد یا پھر اپنا پیارا پاکستان، سازشیں ہمیشہ ان کے اپنے وطن میں پنپتی ہیں اور ملک گنوانے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ سب ہمارے اپنوں کا کیا کرایا ہے۔ اگر 'جنگ‘ برسر جنگ نہ ہوتا تو ایک متعین ہدف کو پالینے کے لئے متحرک ہونے والی قوم اتنی جلد گم گشتہ راہ نہ ہوتیابو الاعلی مودودی
سید ابو الاعلی مودودی
پیدائش 1903ء بمطابق 1321ھ
اورنگ آباد ، دکن - برطانوی ہندوستان
وفات 1979ء بمطابق (بعمر 76 سال)
بفیلو ، نیو یارک ، امریکہ
عہد دور جدید - 20 ویں صدی
مکتبہ فکر اہلسنت والجماعت - غیر مقلد
شعبہ عمل تفسیر ، حدیث ، فقہ ، سیاست ، احیائے اسلام
شہریت ہندوستان ، پاکستان
تصانیف تفہیم القرآن، خلافت و ملوکیت، الجہاد فی الاسلام، پردہ،سود
مؤثر شخصیات ابن تیمیہ ، محمد علی جوہر ، علامہ محمد اقبال ، حسن البناء ، شاہ ولی اللہ
متاثر شخصیات سید قطب ، جلال الدین عمری ، یوسف اصلاحی ، اسرار احمد ، حافظ محمد سعید ، سید علی شاہ گیلانی ، یوسف القرضاوی ، غلام اعظم ، قاضی حسین احمد
سید ابوالاعلٰی مودودی (پیدائش:1903ء، انتقال:1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
اسلام کی دنیا بھر میں موجودہ پذیرائی سید ابوالاعلی مودودی اور شیخ حسن البناء (اخوان المسلمون کے بانی) کی فکر کا ہی نتیجہ ہے جنہوں نے عثمانی خلافت کے اختتام کے بعد نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پذیرائی بخشی۔ سید ابوالاعلی مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردار تھا۔ پاکستانی حکومت نے انہیں قادیانی فرقہ کو غیر مسلم قرار دینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پر عالمی دباؤ کے باعث عملدرآمد نہ ہوسکا۔ سید ابوالاعلی مودودی کو انکی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپکی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔
ابتدائی زندگی
سید ابوالاعلٰی مودودی 1903ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔
1914ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہو گئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔
اس زمانے میں دارالعلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہی تھے جو مولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ تاہم والد کے انتقال کے باعث وہ دارالعلوم میں صرف چھ ماہ ہی تعلیم حاصل کر سکے۔
بطور صحافی
کیونکہ سید مودودی لکھنے کی خداداد قابلیت کے حامل تھے اس لیے انہوں نے قلم کے ذریعے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے اور اسی کو ذریعہ معاش بنانے کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور متعدد اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا جن میں اخبار "مدینہ" بجنور (اتر پردیش)، "تاج" جبل پور اور جمعیت علمائے ہند کا روزنامہ "الجمعیت" دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔
1925ء میں جب جمعیت علمائے ہند نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی نے بطور احتجاج اخبار"الجمعیۃ" کی ادارت چھوڑ دی۔
پہلی تصنیف
جس زمانے میں سید مودودی"الجمعیۃ" کے مدیر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین کی جس پر کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور علانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔
انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت سید مودودی کی عمر صرف 24 برس تھی۔
اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
” اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے “
ترجمان القرآن
"الجمعیۃ" کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑکر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔ جہاں اپنے قیام کے زمانے میں انہوں نے مختلف کتابیں لکھیں، اور 1932 میں حیدرآباد سے رسالہ"ترجمان القرآن" جاری کیا۔
1935ء میں آپ نے "پردہ" کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک کتاب تحریر کی جس کا مقصد یورپ سے مرعوب ہوکر اسلامی پردے پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کے علاوہ "تنقیحات" اور"تفہیمات" کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔
اسلامی قومیت
1938ء میں کانگریس کی سیاسی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ بہت سے مسلمان اور خود علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ہندوؤں کے ساتھ مل گئی۔
کانگریس کے اس نظریہ کو "متحدہ قومیت" یا "ایک قومی نظریہ" کانام دیا جاتا تھا۔ سید مودودی نے اس نظریے کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جو کتابوں کی صورت میں "مسئلہ قومیت" اور ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش" حصہ اول و دوم کے ناموں سے شائع ہوئی۔ مولانا مودودی صاحب پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ اپنے ایک کتابچے میں لکھتے ہیں کہ:۔
” پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں۔۔۔ اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی [1] “
حالانکہ ان کی تحریروں کو اگر کاٹ چھانٹ کر پیش کرنے کے بجائے مکمل سیاق و سباق کے ساتھ اور پورے جملے کو پڑھا جائے تو اصل صورتحال واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ چونکہ تحریک پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی۔ اس تصور کو پیش کرنے، اسے نکھارنے اور فروغ دینے میں سید مودودی کی تحریرات کا حصہ تھا، اسے اس شخص کی زبان سے سنئے جو کہ قائداعظم اور خان لیاقت علی خان کا دست ِ راست تھا۔۔۔۔۔۔یعنی آل انڈیا مسلم لیگ کے جائنٹ سیکریٹری، اس کی مجلس ِ عمل Committee Of Action اور مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سیکریٹری ظفر احمد انصاری لکھتے ہیں۔
” اس موضوع پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے ’’مسئلہ قومیت“ کے عنوان سے ایک سلسلہ ءِ مضامین لکھا جو اپنے دلائل کی محکمی، زور ِ استدلال اور زور ِ بیان کے باعث مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا اور جس کا چرچا بہت تھوڑے عرصے میں اور بڑی تیزی کے ساتھ مسلمانوں میں ہوگیا۔ اس اہم بحث کی ضرب متحدہ قومیت کے نظریہ پر پڑی اور مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کا احساس بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔ قومیت کے مسئلہ پر یہ بحث محض ایک نظری بحث نہ تھی بلکہ اس کی ضرب کانگریس اور جمعیت علماء ہند کے پورے موقف پر پڑتی تھی۔ ہندوئوں کی سب سے خطرناک چال یہی تھی کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کی جدا گانہ قومیت کا احساس کسی طرح ختم کرکے ان کے ملی وجود کی جڑیں کھوکھلی کردی جائیں۔ خود مسلم لیگ نے اس بات کی کوشش کی کہ اس بحث کا مذہبی پہلو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے تاکہ عوام کانگریس کی کھیل کو سمجھ سکیں اور اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں[2]۔
فیض احمد فیض
فیض احمد فیض
فیض
ادیب
پیدائشی نام فیض
تخلص فیض
ولادت 13 فروری 1911ء سیالکوٹ
ابتدا سیالکوٹ، پاکستان
وفات 20 نومبر 1984ء لاہور
اصناف ادب شاعری
ذیلی اصناف غزل، نظم
ادبی تحریک ترقی پسند
تعداد تصانیف 10
تصنیف اول نقش فریادی
معروف تصانیف نقش فریادی ، دست صبا ، زنداں نامہ ، دست تہ سنگ ، شام شہر یاراں ، سر وادی سینا ، مرے دل مرے مسافر ، نسخہ ہائے وفا
دستخط
اردو ادب کے بہت سے ناقدین کے نزدیک فیض احمد فیض (1911 تا 1984) غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر ھیں۔ آپ تقسیم ہند سے پہلے 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز کمیونسٹ تھے ۔
فہرست
سوانح
پیدایش
فیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ایک علم پسند آدمی تھے ۔ آپ کی والدہ کا نام سلطان فاطمہ تھا ۔
تعلیم
آپ نے ابتدای مذ ھبی تعلیم مولوی محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی ۔ بعد ازاں 1921 میں آپ نے سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا ۔ آپ نے میٹرک کا امتحان مرے سکول سیالکوٹ سے پاس کیا اور پھر ایف اے کا امتحان بھی وہیں سے پاس کیا ۔ آپ کے اساتذہ میں میر مولوی شمس الحق ( جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے ۔ آپ نے سکول میں فارسی اور عربی زبان سیکھی۔
بی اے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پھر وہیں سے 1932 میں انگلش میں ایم اے کیا۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔
کیریر
انہوں نے 1930ء میں ایلس فیض سے شادی کی۔1951 میں آپ نے ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی۔ اور پھر ھیلے کالج لاہور میں ۔ 1942 میں آپ فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ھوگے۔ اور محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا ۔ 1943 میں آپ میجر اور پھر 1944 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا گے۔ 1947 میں آپ فوج سے مستعفی ہو کر واپس لاہور اگے۔ اور 1959 میں پاکستان ارٹس کونسل میں سیکرٹری کی تعینات ھوے اور 1962 تک وہیں پر کام کیا۔ 1964 میں لندن سے واپسی پرآپ عبداللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کی حیثیت سے ملازم ہو گئے۔ 1947 تا 1958 مدیر ادب لطیف مدیر لوٹس لندن، ماسکو ، اور بیروت.
راولپنڈی سازش کیس
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
9 مارچ 1951 میں آپ كو راولپنڈی سازش كیس میں معا ونت كے الزام میں حكومت وقت نے گرفتار كر لیا۔ آپ نے چار سال سرگودھا، ساھیوال، حیدر آباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ آپ كو 2 اپریل 1955 كو رہا كر دیا گیا ۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں۔
] پس زنداں
شاعری کے مجموعے
لانس نائیک محمد محفوظ شہید ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں پنڈ ملکاں (اب محفوظ آباد) میں 25 اکتوبر 1944 کو پیدا ہوئے اور انہوں نے 25 اکتوبر 1962 کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔
انہوں نے پاک بھارت جنگ حصہ اور بڑی شجاعت اور دلیری سے دشمن کا مقابلہ کیا۔ ان کی اسی بہادری کے اعتراف میں پاک فوج نے انہیں اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔
کیپٹن کرنل شیر خان شہید
کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1970–1999) پاکستان کے صوبہ سرحد کے ضلع صوابی ایک گاؤں نواں کلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1999 میں بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔
حوالدار لالک جان شہید
حوالدار لالک جان شہید (1967–1999) پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں سلسلہ کوہ ہندوکش کی وادی یاسین میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 15 ستمبر 1999 میں بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ کی مادری زبان کھوار تھی لیکن آپ کو بروشسکی اور شینا زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا-
پیدائش: 1936ء
پاکستانی سائسندان۔پاکستانی ایٹم بم کے خالق۔ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ڈاکٹر قدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان آگئےـڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے مل کر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی ـاس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاءالحق نے تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیںـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھاـ
مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ـڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں ـ انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔
سید ابوالاعلٰی مودودی (پیدائش:1903ء، انتقال:1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
اسلام کی دنیا بھر میں موجودہ پذیرائی سید ابوالاعلی مودودی اور شیخ حسن البناء (اخوان المسلمون کے بانی) کی فکر کا ہی نتیجہ ہے جنہوں نے عثمانی خلافت کے اختتام کے بعد نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پذیرائی بخشی۔ سید ابوالاعلی مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردار تھا۔ پاکستانی حکومت نے انہیں قادیانی فرقہ کو غیر مسلم قرار دینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پر عالمی دباؤ کے باعث عملدرآمد نہ ہوسکا۔ سید ابوالاعلی مودودی کو انکی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپکی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔
1914ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہو گئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔
اس زمانے میں دارالعلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہی تھے جو مولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ تاہم والد کے انتقال کے باعث وہ دارالعلوم میں صرف چھ ماہ ہی تعلیم حاصل کر سکے۔
1925ء میں جب جمعیت علمائے ہند نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی نے بطور احتجاج اخبار"الجمعیۃ" کی ادارت چھوڑ دی۔
انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت سید مودودی کی عمر صرف 24 برس تھی۔
اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
1935ء میں آپ نے "پردہ" کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک کتاب تحریر کی جس کا مقصد یورپ سے مرعوب ہوکر اسلامی پردے پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کے علاوہ "تنقیحات" اور"تفہیمات" کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔
کانگریس کے اس نظریہ کو "متحدہ قومیت" یا "ایک قومی نظریہ" کانام دیا جاتا تھا۔ سید مودودی نے اس نظریے کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جو کتابوں کی صورت میں "مسئلہ قومیت" اور ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش" حصہ اول و دوم کے ناموں سے شائع ہوئی۔ مولانا مودودی صاحب پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ اپنے ایک کتابچے میں لکھتے ہیں کہ:۔
حالانکہ ان کی تحریروں کو اگر کاٹ چھانٹ کر پیش کرنے کے بجائے مکمل سیاق و سباق کے ساتھ اور پورے جملے کو پڑھا جائے تو اصل صورتحال واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ چونکہ تحریک پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی۔ اس تصور کو پیش کرنے، اسے نکھارنے اور فروغ دینے میں سید مودودی کی تحریرات کا حصہ تھا، اسے اس شخص کی زبان سے سنئے جو کہ قائداعظم اور خان لیاقت علی خان کا دست ِ راست تھا۔۔۔۔۔۔یعنی آل انڈیا مسلم لیگ کے جائنٹ سیکریٹری، اس کی مجلس ِ عمل Committee Of Action اور مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سیکریٹری ظفر احمد انصاری لکھتے ہیں۔
ڈاکٹرعبد القدیر خان محسن پاکستان
عبدالقدیرخان ہلال امتیاز, نشان امتیاز (دو دفعہ) | |
---|---|
ڈاکٹر عبدالقدیر خان | |
پیدائش | 01 اپریل 1936 بوپھال, مدیہہ پردیش, برطانوی ہندوستان |
سکونت | اسلام آباد, پاکستان |
شہریت | پاکستان |
قومیت | پاکستانی |
میدان | Metallurgical Engineering |
اِدارے | یونیرکو گروپ خان ریسرچ لیبارٹریز فزیکل ڈاینامک ریسرچ لیبارٹری غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف انجنیرنگ و ٹیکنالوجی |
مادر علمی | جامعہ کراچی ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن کیتھولک یونورسٹی لیوان ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی |
علمائی مشیر | Martin J. Brabers [1] |
Other academic advisors | بشیر سید |
وجہِ معروفیت | پاکستان کے ایٹیمی پروگرام |
اہم انعامات | ہلال امتیاز (14-8-1989) نشان امتیاز (14-8-1996 اور 23-3-1999) |
پاکستانی سائسندان۔پاکستانی ایٹم بم کے خالق۔ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ڈاکٹر قدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان آگئےـڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے مل کر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی ـاس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاءالحق نے تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیںـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھاـ
مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ـڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں ـ انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔
حکیم محمد سعید
حکیم محمد سعید (9 جنوری 1920ء تا 17 اکتوبر 1998ء) ایک مایہ ناز حکیم تھے جنہوں نے اسلامی دنیا اور پاکستان کے لیے اہم خدمات انجام دیں۔ انہوں نے مذہب اور طب و حکمت پر 200 سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونیورسٹی انکے قائم کردہ اہم ادارے ہیں۔
فہرست |
ادبی خدمات
حکیم سعید اور بچوں کا ادب
حکیم سعید بچوں اور بچوں کے ادب سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اپنی شہادت تک وہ اپنے ہی شروع کردہ رسالے ہمدرد نونہال سے مکمل طور پر وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نونہال ادب کے نام سے بچوں کیلیے کتب کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں کئی مختلف موضوعات پر کتب شائع کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہترین عالمی ادب کے تراجم بھی شائع کیے جاتے ہیں۔شہادت
17 اکتوبر 1998ء میں انہیں کراچی میں شہید کر دیا گیا جس کا الزام بعض لوگ MQM پر لگاتے ہیں۔ جس وقت انہیں آرام باغ میں ان کے دواخانہ کے باہر وحشیانہ فائرنگ کرکے قتل کیا گیا وہ روزہ کی حالت میں تھے یوں انہوں نے روزہ کی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ ان کا معمول تھا کہ وہ جس روز مریضوں کو دیکھنے جاتے روزہ رکھتے تھے چونکہ ان کا ایمان تھا کہ صرف دوا وجہ شفاء نہیں ہوتی۔ حکیم محمد سعید پاکستان کے بڑے شہروں میں ہفتہ وار مریضوں کو دیکھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ ان کا ادارہ ھمدرد بھی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کی تمام تر آمدنی ریسرچ اور دیگر فلاحی خدمات پر صرف ہوتی ہیں۔عبد الستار ایدھی
عبدالستار ایدھی المعروف مولانا ایدھی خدمت خلق کے شعبہ میں پاکستان اور دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں، جو پاکستان میں ایدھی فاونڈیشن کے صدر ہیں۔ ایدھی فاونڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی، بلقیس ایدھی فاونڈیشن کی سربراہ ہیں۔ دونوں کو 1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسےسے ایوارڈ (Ramon Magsaysay Award) سے نوازا گیا۔
فہرست |
ابتدائی حالات
مولانا ایدھی 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد کپڑا کے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کی چھوٹے چھٹوے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں انکو سکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی تھا۔
آغاز
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوۓ۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنہوں نے ان کو طبی امداد کی بنیادات سکھائیں۔ اسکے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔
1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگواۓ اور مفت مدافعتی ادویہ فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوۓ باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے سکول کھول لیا، اور یہی ایدھی فاونڈیشن کا آغاز تھا۔
ایدھی فاونڈیشن کی ترقی
آنے والوں سالوں میں ایدھی فاونڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاونڈیشن کے پاس 600 سے زیادہ ایمبولینسیں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں امداد کے لیے وہ خود روانہ ہوتے ہیں اور ایدھی فاونڈیشن کی حادثات پر ردعمل میں کی رفتار اور خدمات میونسپل کی خدمات سے کہیں زیادہ تیز اور بہتر ہے۔ ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاونڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اسکو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاونڈیشن
فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاونڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بزات خود متاثرہ ممالک میں جا کر کرتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے چند نام افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔
16 اگست 2006ء کو بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی کی جانب سے ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا گیا۔ جس کے تحت دنیا کے امیریاغریب ہویا دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ، یو کے، اسرائیل، شام، ایران، بھارت، بنگلہ دیش ہوں میں یہ ایمبولینس بطور عطیہ دی جا رہی ہے اورانہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال تک استعمال کرنے کے بعد فروخت کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال کریں۔
بیگم بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی نے اس موقعہ پر کہا کہ وہ دنیا کاامیر یاغریب ملک ہووہاں مریض مریض ہی ہوتا ہے ایمبولینس کامقصد انسانوں کی جانیں بچانا ہوتا ہے اور ہمیں اس بات کی خوشی ہوگی کہ ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کی ایمبولینسیں دنیا بھرمیں انسانوں کی جانیں بچائیں خواہ وہ لندن، نیویارک، ٹوکیو، تل ابیب، بیروت اوردمشق ہوں انہوں نے کہا کہ انسانیت کی بین الاقوامی خدمت کے حوالے سے ہمارا ایک قدم اورآگے بڑھ رہا ہے۔
جدید میراث
آج پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی ایدھی نے ایک غیر خود غرض اور محترم شخص کے طور شہرت پائی ہے۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روائتی پاکستانی لباس پہنتے ہیں، جو صرف ایک یا دو انکی میلکیت ہیں، اسکے علاوہ انکی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا ہے، جسکو وہ سابقہ بیس سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاونڈیشن کا بجٹ ایک کروڑ کا ہے جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرتے۔ آپ کے بیٹے فیصل بتاتے ہیں، جب افغانستان میں مرکز کا افتتا ح کیا جا رہا تھا تو عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب ایدھی وہاں آۓ تو وہ اس بات پر سخت خفا ہوۓ، کونکہ انکے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ اس رات آپ کلینک کے فرش پر ایمبولینسوں کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوۓ۔
ایدھی فاونڈیشن کا مستقبل
آج ایدھی فاونڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ایدھی مستقبل کی طرف دیکھتے ہوۓ کہتے ہیں، وہ پاکستان کے ہر 500 کلو میٹر پر ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ گرچہ انکو احترام کے طور پر مولانا کا لقب دیا گیا ہے لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے کبھی کسی مذہبی سکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوانا پسند کرتے ہیں، کیونکہ انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹلریشن سے ڈاکٹری کی اعزازی سند دی گئی ہے۔ وہ اس بات کو بھی سخت ناپسند کرتے ہیں جب لوگ انکی یا انکے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ حکومت یا سابقہ مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے۔ ضیاءالحق اور اطالوی حکومت کی امداد انہوں نے اسی خیال سے واپس کر دی تھی۔
1996ء میں انکی خودنوشت سوانح حیات شائع ہوئی۔
1997ء گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ایدھی بذات خود بغیر چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ اور ریکارڈ بننے کے بعد بھی ابھی تک انہوں نے چھٹی نہیں لی۔
اعزازات
- 1988ء لینن امن انعام (Lenin Peace Prize)
- 1986ء عوامی خدمات میں رامون مگسےسے اعزاز (Ramon Magsaysay Award)
- 1992ء پال ہیریس فیلو روٹری انٹرنیشنل فاونڈیشن (Paul Harris Fellow Rotary International Foundation)
- 2000ء انسانیت، امن اور بھائی چارے کا انٹرنیشنل بالزن اعزاز (International Balzan Prize)
- 26 مارچ 2005ء عالمی میمن تنظیم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز (Life Time Achievement Award)
میرخلیل الرحمٰن
میر خلیل الرحمٰن جنگ گروپ آف نیوز پیپر کے بانی تھے وہ 1927 کو ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے جو کہ ہجرت کرکے گوجرانوالہ میں منتقل ہوچکا تھا۔ ان کے والد میر عبدالعزیز تھے جو تعلیم کے حصول کے لئے علی گڑھ گئے تھے۔ دادا امیرجان محمد ایک تاجر تھے۔ میر عبدالعزیز نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دلی میں ملازمت اختیار کرلی اور اپنے پورے خاندان کو بھی بلوالیا۔ ابھی میر خلیل الرحمٰن ابتدائی برسوں میں ہی تھے ان کے والد میر عبدالعزیز کا انتقال ہوگیا۔
میر خلیل الرحمٰن نے اپنی اخباری زندگی کا آغاز ایک ہاکر سے کیا، انہوں نے جلد ہی اخباری مالکان سے تعلقات قائم کرلئے۔ اس دوران انہیں اپنا اخبار شائع کرنے کا خیال آیا۔ انہوں نے سرمائے کی عدم دسیابی کے باوجود جنگ کے نام سے 1941 میں دلی سے ایک شام کا اخبار شائع کیا۔ وہ جنگ عظیم دوئم کا ذمانہ تھا۔ انہوں نے اس دوران جنگ عظیم کے علاوہ جدوجہد آزادی کو بھی خبروں میں نمایا مقام دیا۔ غالبا اخبار کا نام بھی ان ہی حالات کی مناسبت سے جنگ رکھا گیا ہوگا۔ اخبار کی قیمت صرف ایک پیسہ تھی۔ میر خلیل الرحمٰن کے بقول اخبار کی فروخت سے جو رقم ملتی تھی اسی سے دوسرے روز کے اخبار کا کاغز خریدا جاتا۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پورے خاندان سمیت پاکستان ہجرت کی اور کراچی کے برنس روڈ پر ایک چھوٹا سا کمرہ لے کر 15 اکتوبر 1947 کوروزنامہ جنگ اخبار کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہ وہ دن تھے جب جنگ شام کا اخبار تھا۔ جلد ہی جنگ اخبار نے کامیابیاں حاصل کرنا شروع کردیں۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں میر خلیل الرحمٰن نے اخبار کے لئے سخت محنت کی وہ خودہ پریس کانفرنس میں بھی جاتے اور دیگر امور بھی انجام دیتے۔ انہوں نے کتابت بھی سیکھ رکھی اگر کاتب کو تاخیر ہوتی وہ ہنگامی حالت میں خود ہی کتابت بھی کرلیتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں صحافت کو نئی جہت دی اور ہمیشہ نئی ٹیکنالوجی درآمد کرنے میں پہل کی۔ کمپیوٹر کی نوری نستعلیق کتابت بھی انہوں نے پاکستان کے ایک نامور کاتب اور برطانیہ کی ایک کمپنی کے ساتھ مل کر بنوائی تھی اور اس کتابت کا پہلا اخبار لاہور سے شائع کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتداء میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ شاید قارئیں نئی کمپیوٹر کتابت کو پسند نہ کریں مگر لاہور میں اخبار کے نئے انداز بہت پسند کیا گیا اور آج یہ تقریبا ہر اخبار میں رائج ہے۔
صحافیوں کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں میر خلیل الرحمٰن نے آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خبر پر کہا تھا کہ میری زندگی کی سب سے بڑی خبر قیام پاکستان کا اعلان تھا اور میری زندگی کی سب سے بُری خبر سقوط مشرقی پاکستان تھا، اس خبر نے مجھ پر سکتہ طاری کردیا اور دل ڈوبنے لگا، یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے نہ اس وقت میرے پاس الفاظ تھے اور نہ اب ہیں۔
میر خلیل الرحمٰن نے اپنی اخباری زندگی کا آغاز ایک ہاکر سے کیا، انہوں نے جلد ہی اخباری مالکان سے تعلقات قائم کرلئے۔ اس دوران انہیں اپنا اخبار شائع کرنے کا خیال آیا۔ انہوں نے سرمائے کی عدم دسیابی کے باوجود جنگ کے نام سے 1941 میں دلی سے ایک شام کا اخبار شائع کیا۔ وہ جنگ عظیم دوئم کا ذمانہ تھا۔ انہوں نے اس دوران جنگ عظیم کے علاوہ جدوجہد آزادی کو بھی خبروں میں نمایا مقام دیا۔ غالبا اخبار کا نام بھی ان ہی حالات کی مناسبت سے جنگ رکھا گیا ہوگا۔ اخبار کی قیمت صرف ایک پیسہ تھی۔ میر خلیل الرحمٰن کے بقول اخبار کی فروخت سے جو رقم ملتی تھی اسی سے دوسرے روز کے اخبار کا کاغز خریدا جاتا۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پورے خاندان سمیت پاکستان ہجرت کی اور کراچی کے برنس روڈ پر ایک چھوٹا سا کمرہ لے کر 15 اکتوبر 1947 کوروزنامہ جنگ اخبار کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہ وہ دن تھے جب جنگ شام کا اخبار تھا۔ جلد ہی جنگ اخبار نے کامیابیاں حاصل کرنا شروع کردیں۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں میر خلیل الرحمٰن نے اخبار کے لئے سخت محنت کی وہ خودہ پریس کانفرنس میں بھی جاتے اور دیگر امور بھی انجام دیتے۔ انہوں نے کتابت بھی سیکھ رکھی اگر کاتب کو تاخیر ہوتی وہ ہنگامی حالت میں خود ہی کتابت بھی کرلیتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں صحافت کو نئی جہت دی اور ہمیشہ نئی ٹیکنالوجی درآمد کرنے میں پہل کی۔ کمپیوٹر کی نوری نستعلیق کتابت بھی انہوں نے پاکستان کے ایک نامور کاتب اور برطانیہ کی ایک کمپنی کے ساتھ مل کر بنوائی تھی اور اس کتابت کا پہلا اخبار لاہور سے شائع کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتداء میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ شاید قارئیں نئی کمپیوٹر کتابت کو پسند نہ کریں مگر لاہور میں اخبار کے نئے انداز بہت پسند کیا گیا اور آج یہ تقریبا ہر اخبار میں رائج ہے۔
صحافیوں کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں میر خلیل الرحمٰن نے آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خبر پر کہا تھا کہ میری زندگی کی سب سے بڑی خبر قیام پاکستان کا اعلان تھا اور میری زندگی کی سب سے بُری خبر سقوط مشرقی پاکستان تھا، اس خبر نے مجھ پر سکتہ طاری کردیا اور دل ڈوبنے لگا، یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے نہ اس وقت میرے پاس الفاظ تھے اور نہ اب ہیں۔
میر خلیل الرحمٰن نقادوں کی نظر میں
تنقید کرنے والوں کے مطابق میر صاحب نے پاکستان میں زرد صحافت کو فروغ دیا۔ وہ ہر حکمران کے منظور نظر رہے اورکبھی بھی عوام کی ترجمانی نہیں کی۔ ان کا ایک قول بہت مشہور ہے کہ جنگ اخبار کی پالیسی یہ ہے کہ اس کی کوی پالیسی نہیں۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ صحافت کو کاروبار بنانے کا سہرا بھی میر صاحب کے سر جاتا ہے جس نے پاکستانی صحافت کو آج تک اصولوں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ جنگ اخبار نے کبھی بھی اصولوں کی خاطر قربانیاں نہیں دیں۔ جبکہ دیگر اخبارات پابندیوں کی زد میں آتے رہے۔ یہ مضمون جامعہ کراچی مغربی پاکستان کے تدریسی شعبہ 'ابلاغیات‘ کے 'جرنلسٹس‘ کے 'جنگ نمبر‘ کے لئے اردو کے ممتاز ادیب اور نقاد مرحوم شمیم احمد نے تحریر کیا تھا جو بعض وجوہات کی بناءپر شائع نہ ہو سکا تھا۔ مجلہ 'ساحل‘ کراچی نے اس مضمون کو جولائی 2006ءکی اشاعت میں شائع کیا تھا۔ معاشرے جب عروج اور ارتفاع کی طرف گامزن ہوتے ہیں تو اس کی وجہ وہ استعداد ہوتی ہے جو انہوں نے ماضی میں حاصل کی ہوتی ہے۔ اِسی طرح زوال اور پستی سے پہلے، فکر اور خیال کے سوتے خشک ہوتے ہیں۔ اعلیٰ قدروں سے پہلو تہی، نفس پرستی اور بے عملی زوال پذیر معاشرے کی نمایاں صفات ہوتی ہیں ہم اپنے وجدان سے اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ عروج وزوال فطری یا طبعی اصول کے تابع ہیں مگر کوئی معاشرہ کب دو میں سے کسی ایک راہ پر چل پڑتا ہے۔ انسان کی دانش ابھی اسے دریافت نہیں کر پائی ہے۔ ہاں زوال کے دوران میں اگر معاشرے میں اپنے تصور حیات سے کسی نہ کسی سطح پر حقیقی تعلق باقی رہتا ہے تو پھر ایسے معاشرے میں نسبتاً جلد وہ قوت پیدا کی جا سکتی ہے جو عروج اور ارتفاع کی سمت معاشرے کو لے جاتی ہے۔ اعلیٰ اقدار سے انحراف کے خطرناک اثرات: معاشرے میں اعلیٰ قدروں کی ترویج یا ان سے انحراف معاشرے میں جلد ہی اپنے اثرات پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ بھی ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں اُس کی تشکیل کے ساتھ ہی زوال کے عوامل پیدا ہو گئے۔ اس معاشرے کا ایک فرد کی حیثیت سے میں تحریک پاکستان کی کامیابی سے لے کر زوال کے عوامل تک کے اپنے مشاہدات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ پاکستانی معاشرے کی تباہی میں "جنگ" کا پچاس فیصد حصہ: پاکستانی معاشرے کی تباہی میں جتنا کردار جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ان کی محافظ نوکر شاہی اور اقتدار پسند فوج کا رہا ہے اتنا ہی ہمارے ایک اکیلے اخبار روزنامہ جنگ کا ہے۔ میں کسی مبالغے سے کام نہیں لے رہا۔ 'جنگ‘ نے محض اپنی ذاتی مفاد کیلئے ہر اُس قدر کو پامال کیا جو ایک نوتعمیر معاشرے کی بنیاد مضبوط کر سکتی تھی۔ قربانیاں ہماری روایت نہیں: روزنامہ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمان کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کا اخبار قربانی کے فلسفے پر پورا نہیں اترتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کسی پارٹی کا نمائندہ اخبار بھی نہیں ہے جو اپنے نصب العین کیلئے نقصان اٹھانا برداشت کر لیتے ہیں۔ بھٹو دور میں جب مخالف صحافیوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی تھی تو ہڑتالیوں کی حالت زار دیکھ کر میر خلیل الرحمان نے کہا تھا، بیشک آپ مشنری لوگ ہیں۔ آپ کا اخبار کاغذ کے پرزے پر بھی بک جائے گا۔ روزنامہ جنگ پر اگر کوئی ایسی افتاد پڑے تو اس کو دوسرے دن پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ انہوںنے بارہا کہا کہ 'جنگ‘ ایک کمرشل اخبار ہے۔ اس سے آپ 'زمیندار‘ والی یا 'کامریڈ‘ والی کسی قربانی اور ایثار کی توقع نہ رکھئیے۔ ان بیانات میں کسی قسم کی شرمندگی کے بغیر جو نیم فخریہ انداز اخبار کے کمرشل ہونے پر موجود ہے اُسی نے 'جنگ‘ کو ابتداءسے پاکستان کی سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی تباہی میں 'قابل فخر‘ کردار انجام دینے کے قابل بنا دیا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل انجام اور جنگ کا موازنہ: اخبار 'انجام‘ کو مسلم لیگ کا آرگن ہونے میں وہ اعزاز حاصل نہیں تھا جو اخبار 'منشور‘ کو حاصل تھا، مگر شہرت میں انجام منشور سے آگے تھا۔ انہیں دنوں میر خلیل الرحمان نے سید محمد تقی صاحب کی زیرادارت 'جنگ‘ کا آغاز کیا مگر قیام پاکستان تک 'جنگ‘ دہلی میں مقبول نہیں ہو سکا تھا اور نہ ہی مدیران اخبار کی نیتوں سے پردہ اٹھا تھا۔ سنسنی خیزی اور عوام کے جذبات سے کھیلنا اور اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے روزنامہ 'جنگ‘ 'انجام‘ جیسے بھاری قدیم اخبار کا وقار نہیں گرا سکا تھا۔ البتہ نیم خواندہ یا نچلے طبقوں میں وہ اس طرح اپیل کرتا تھا جس طرح کراچی میں شام کا اخبار 'نئی روشنی‘ کسی زمانے میں کیا کرتا تھا۔ جرم وسزا کی خبریں نمایاں کرنا، نیم برہنہ عورتوں کی تصویروں کی نمائش کرکے ظاہر ہے روزنامہ 'جنگ‘ کسی سیاسی یا تہذیبی تربیت کا فریضہ انجام نہیں دے رہا تھا۔ اُس وقت 'جنگ‘ کی یہی حیثیت تھی۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی کی صحافت کا منظر: تقسیم ہند کے بعد ڈان، انجام اور جنگ کراچی منتقل ہو گئے، ابھی تک ہر اخبار کا محدود طبقہ برقرار تھا، یہاں بھی 'انجام‘ سب سے مقبول اخبار بنا رہا، عثمان آزاد اِس بات کا ادراک نہ کر سکے کہ روزنامہ جنگ اب اپنی سرزمین سے شائع ہو رہا ہے۔ دلی والے ہتھکنڈے کراچی کی فضا میں برگ وبار لانے لگے، البتہ قوم کو سنجیدہ صحافت سے روشناس کرانا یہاں بھی جنگ کا مطمح نظر نہیں تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے ابتدائی زمانے میں لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے سیاسی تناظر، کشمیر کے مسئلے، نئی سرحدوں اور دریاؤں کی تقسیم کے نہایت اہم معاملات کے ساتھ بین الاقومی سطح پر ایک خاص انداز کی گروہ بندیوں میں 'جنگ‘ نے تمام اخبارات کے مقابلے پر سب سے زیادہ سیاسی استحصال کیا اور اپنے عوام میں کبھی وہ شعور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جو ایک حقیقی صحافت کا فرض ہوتا ہے۔ چڑھتے سورج کے ساتھ موضوعات بدل دینا 'جنگ‘ کی صحافت کا بڑا وصف تھا۔ بحران کی صورت میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کی بجائے اپنی اشاعت کو بڑھانا اور حقائق سے پردہ نہ اٹھانا 'جنگ‘ کی پالیسی تھی، اس کے نتیجے میں غلام محمد جیسے افراد اقتدار میں آئے، فوج کو مداخلت کا موقع فراہم ہوا اور بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔ ملک کی تباہی میں 'جنگ‘ کی ترقی کا سامان وافر تھا، 'جنگ‘ کے اثاثے لاکھوں سے کروڑوں میں ہو گئے تھے۔ اخبار انجام کو شکست دینے کیلئے سنسنی خیز مواد، جنسی اور جرائم پر مبنی کہانیاں اور عورت کا جسم اخبار کی مستقل خصوصیت بنا رہا۔ نظریاتی اور دینی پس منظرکا احساس وہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا تھا۔ مس جین کی کہانی لوگوں کو اب بھی یاد ہوگی۔ یہ بے ہودگی اس سے پہلے کسی اخبار کی زینت نہیں بنی تھی۔ 'جنسی عمل کا دورانیہ‘ شہ سرخی کے ساتھ دینا، فلمی دُنیا کے اسکینڈل، لوگوں کیلئے موضوع سخن بنا دینا، 'جنگ‘ کو اس میں یدطولی حاصل تھا۔ 'جنگ‘ کی دیکھا دیکھی اخبار انجام نے بھی یہی روش اپنانے کی کوشش کی مگر ایک تو اس کا مزاج ایسا نہیں تھا دوسرے دلی سے کراچی منتقلی کی وجہ سے اُس کے وسائل بھی کم تھے تیسرا 'جنگ‘ نے ایک اور گھٹیا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ جن کے ہاں 'انجام‘ باقاعدگی سے آتا تھا وہاں صبح سویرے ہاکر جو اخبار پھینک جاتا وہ 'جنگ‘ ہوتا، ہاکر سے تڑکے تڑکے ملنا کوئی آسان نہیں تھا مہینے کے آخر میں حساب کرنا تھا، ہاکر نے کہا کہ 'انجام‘ ہم کو ملتا ہی نہیں، نیوز ایجنسی جا کر معلوم ہوا کہ 'انجام‘ وقت پرنہیںپہنچ پاتا۔ا یسی بدنظمی کا شکار'انجام‘نہیںہو سکتا تھا۔ ہاکر، نیوز ایجنسی اور حکام کے ساتھ ملی بھگت کے علاوہ جنگ نے اپنی ذاتی نیوز ایجنسیاں بھی قائم کر لی تھیں۔ عثمان آزاد کو الگ بدنام کرنے کی مہم چل نکلی تھی، بازار سے 'انجام‘ کے بنڈل کے بنڈل خرید کر نذر آتش کر دیے جاتے۔ یہی کھیل اقتدار کی سطح پر حکمران طبقہ بھی کر رہا تھامعاشرے کی اقدار داؤ پر لگی تھیں۔'انجام‘ اپنے انجام کو پہنچا۔ جنگ کا ہدف اب کل پاکستان میں مونوپولی پیدا کرنا تھا، اخبار 'حریت‘ کے فخر ماتری نے ہاکرز کی انفرادی ٹیم کے ذریعے اپنے اخبار کو بروقت پہنچانے کا اہتمام کیا۔ طباعت کے معیار میں بھی 'حریت‘ 'جنگ‘ سے کہیں بہتر تھا مگر قومی ذمہ داری سے نچنت ذہنیت والے کثیر سرمایہ اور سیاسی اثر ونفوذ والے 'جنگ‘ کا وہ مقابلہ نہ کر سکے۔ جنگ والے اپنی کامیابی کے یہ اسباب بتاتے ہیں۔ 'جنگ‘ صرف اخبار ہے۔ ہر خبر اور اسکینڈل کو غیر جانب داری سے پیش کرنا ہماری صحافتی ذمہ داری ہے۔ 'جنگ‘ جو پیش کرتا ہے وہی عوام کی خواہش ہے تبھی تو 'جنگ‘ سب سے زیادہ فروخت ہونے والا روزنامہ ہے۔ ہر طبقے کیلئے مواد بہم پہنچانا، جنگ کی مقبولیت کا سبب ہے۔ معاملہ ایسا سیدھا سادھا نہیں ہے۔ 'جنگ‘ سے پہلے ہندستان میں سنجیدہ اخبار کیوں مقبول تھے۔ کیا شہرت اور سرمایہ کا آجانا بذات خود کوئی قابل فخر بات ہے۔ قوم فروشی اور ملک فروشی تک آپ کے اخبار میں وہ سنسنی نہیں پھیلاتے جو محلے اور سینما کی سطح پر ہونے والے معمولی واقعات پھیلاتے ہیں۔ اتنے ہمہ گیر واقعات سے چشم پوشی بھی صحافتی ذمہ داری ہے؟ 'جنگ‘ کا اصول یہ رہا ہے کہ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس"۔ غلام محمد جیسے سازشی بیورو کریٹ یا ایک فوجی اقتدار پسند نے تحریک آزادی کے تمام خوابوں کو ملیامیٹ کرکے اور تحریک پاکستان کے تمام اصولوں کو روند کر اور ان پڑھ مسلمان عوام کی اکثریت کی خواہشات کو دھوکہ دے کر جس طرح پاکستان پر قبضہ جما لیا تھا آپ ان کی کامیابی کو پاکستانی عوام کی خواہشات کا نتیجہ یا ان مفاد پرستوں کو پاکستان کے مخلص لیڈروں کے مقابلے پر ہم انہیں اقتدار کا اصل حق دار اور انہیں آئیڈیل حکمران یا پاکستانی معاشرے پر حکومت کا بہترین نمونہ کیسے قرار دینے لگیں! عملاً یہی ہوا ہے، مگر 'جنگ‘ کی تمام کوششوں کے باوجود پاکستان کے عوام اب بھی اسلام کو ہی پسند کرتے ہیں، غلام محمد، جنرل ایوب خان، سکندر مرزا، یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو بانی پاکستان پر کون ترجیح دیتا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان میں مسلم لیگ کی پالیسی کے سنگ 'جنگ‘ کون سے عوام کی خواہشات پوری کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد عوام کی شرافت کہاں چلی گئی تھی؟ ہندوستان میں موجود دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی نے اپنے دین کیلئے جو جدوجہد کی تھی اور جسے اُس وقت 'جنگ‘ بھی مہمیز دیتا تھا وہ اب مضحکہ خیز ہی نہیں بن گئی بلکہ 'جنگ‘ شاید ایسی جدوجہد کو بطور اصل اصول کے تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں ہے، و ہ اُسے بے شعوری کی حالت پر محمول کرتے ہیں۔ کیا اس اصول کو بنیاد تسلیم نہ کرکے تقسیم ہند کیلئے کوئی اور دلیل پیش کی جا سکتی ہے؟ جنگ جو اس وقت مسلمانوں کی نمائندگی کا دعوے دار تھا ___ وہ مسلمان جو ایک نظریہ حیات کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے ایک خطے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ___ وہ اخبار اب غیر جانبداری پر فخر کس منہ سے کر سکتا ہے۔ تحریک کی ناؤ کنارے لگی تو بجائے اصل نظریے کو فروغ دینے کے 'جنگ‘ نے سنسنی خیزی، جرائم پیشگی، عورت کے استحصال، نظریہ پاکستان کی بیخ کنی، سیاست میں جذباتیت کا گھناؤنا کاروبار، ارباب اقتدار کی خوشامد، حکام کی کاسہ لیسی، قومی امور میں بے بصیرت تجزیہ نگاری، فرقہ پرستی سے نسل پرستی تک ہر گھناؤنا عمل محض اپنی مفاد پرستی کیلئے انجام دیا۔ خیر نظریہ حیات اور اصول پرستی سے 'جنگ‘ کو کیا واسطہ، خالص پیشہ ورانہ مغربی صحافت کے معیار پر 'جنگ‘ کو پرکھ لیتے ہیں۔ مغربی پریس کو بھی آپ بامقصد معاشرے کو تعمیر کرنے، قوم کی ترقی اور تہذیب وشائستگی اور بااصول قوم بنانے کے عمل سے خارج نہیں کر سکتے۔ 'جنگ‘ کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ لندن کے معاشرے کو ایک مہذب قوم بنانے میں اسپیکٹیٹر، ٹیٹلر اور لندن پنچ نے کیا کیا خدمات انجام دی ہیں۔ان اخبارات نے انگلینڈ میں جو قوم بنائی تھی سیاسی زوال اور سماجی انحطاط کے باوجود انفرادی اخلاقیات سے لے کر اجتماعی بہبود تک وہ آج بھی بہت سے معاشروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ انگریز نے تو غلامی سے آزاد بھی نہیں ہونا تھا، نظریاتی ریاست قائم کرنا بھی ان اخبارات کے پیش نظر نہیں تھا پھر بھی انہوں نے بلند خیال اور اعلیٰ قدروں کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا، ایک ایسا معاشرہ جس پر اچانک اپنے نظریے کو ثابت کرنے کی ذمہ داری آن پڑی تھی، اُس کی تہذیب اور تربیت کیلئے اخبارات کا کیا فریضہ بنتا تھا۔ 'جنگ‘ والے اس کا جواب کبھی نہیں دے سکتے۔ ہندوستان میں بھی اُردو صحافت انگریزوں کی لائی ہوئی صحافت سے پیدا ہوئی تھی، اُردو صحافت کی تاریخ سے تو میر خلیل الرحمان شناسا ہوں گے۔ سرسید کا 'تہذیب الاخلاق‘ اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر کے تتبع میں جاری ہوا تھا۔ لکھنؤ میں 'اودھ پنچ‘ کے سامنے لندن پنچ کا نمونہ تھا۔ منشی سجاد حسین اکبر الہ آبادی جیسے اصلاح کاروں کو ہندوستان میں اُردو صحافت نے پیدا کیا تھا۔ اودھ اخبار اور اودھ پنچ نے نہ صرف دانشوروں کی کھیپ پیدا کی جنہوں نے مسلمانوں کے قومی شعور کی تعمیر وترقی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب، اخلاقیات، تاریخ، تہذیب اور معاشرت کی بہترین اقدار کی آبیاری کی اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیق کار بھی تھے۔ ان اخبارات کی بدولت جدید ادبی اصناف متعارف ہوئیں۔ ناول نگاری، افسانہ نگاری، تنقید، مضمون نگاری، نظم اور طنز ومزاح۔ اُس دور کو بیسیویں صدی کا سب سے اہم اُردو ادبی دور مانا جاتا ہے۔ ہمارا مشرقی معاشرہ کب واہیات کا خوگر رہا ہے! اُردو صحافت کا مسلم نشاۃ ثانیہ میں کردار: اُردو صحافت نے بیسویں صدی میں زندہ اور بیدار قومی شعور پیدا کیا تھا۔ سیاسی اور قومی قیادت اخبارات کرتے تھے، ہمیں آزادی کی جنگ لڑنے والی قوم 'جنگ‘ نے نہیں بنایا تھا نہ جنگ میں وہ سوز ہے اور نہ وہ جگر داری۔ کیا الہلال، البلاغ، کامریڈ، ہمدرد اور زمیندار کی خدمات بھلائی جا سکتی ہیں۔ حالی، شبلی، اکبر الہ آبادی، سجاد حسین، عبدالحلیم شرر، اقبال، حسرت موہانی، اسماعیل میرٹھی، مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، علامہ مشرقی، سلیمان ندوی، ابوالاعلی مودودی اور مولانا ظفر علی خان جیسے دیانت دار اور جگر پاش شخصیات نے جو ادب تخلیق کیا تھا وہ سب عوام کی خواہشات کے برخلاف فروغ پا گیا تھا! جہاں ملک کا ایک بازو کٹ گیا ہو اور دوسرا لہو لہو ہو، غربت کا گراف روز بروز بڑھ رہا ہو، وہاں اخبار کے مالکان لکھ پتی سے کروڑ پتی بن جائیں تو ایسی صحافت کو کیا کہیے گا! یقینا اسے ایک نئی قوم اور نئی مملکت کو اپنے کرتوتوں، ذہنیت اور بداعمالیوں کی چاٹ کی بھینٹ چڑھا کر بانسری بجانے کے عمل سے ہی موسوم کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے معصوم، بھولے بھالے اور ناخواندہ عوام جس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے، تحریک پاکستان کا کردار بنے تھے ان کی کردار سازی میں 'جنگ‘ کا بھی کوئی کردار ہے!؟ میر خلیل الرحمان اگر زندہ ہوتے تو اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔ مس ڈولنگر کی ننگی ٹانگوں سے لے کر پرتعیش فاحشاؤں کے چٹخارے دار داستانوں تک اور ہر قسم کی بدکرداری میں مبتلا کرکے اپنی قوم میں کسی قسم کا قومی اور سیاسی شعور بیدار نہ ہونے دینا، مغربی صحافت کا امتیاز کب رہا ہے، اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ 'جنگ‘ ایک مغربی طرز کا حامل اخبار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد تقریباً پانچ سال تک قوم اپنے نصب العین سے غافل نہیں ہوئی تھی، تحریک پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے، وہ اس انتظار میں رہے کہ کب ان سے کئے گئے وعدے پورے ہوتے ہیں، سیاست دانوں سے مایوس ہو کر ایوب خان کے مارشل لاءسے ان کی امید بندھی، ناامید ہو کر آخر قوم نے حالات کے دھارے پر اپنے مقدر کی ناؤ رکھ دی۔ امید وبیم کے اِن پانچ برسوں میں 'جنگ‘ نے عوام کی خواہشات کا کتنا پاس لحاظ رکھا تھا۔ حالات سے قوم کو باخبر رکھنے میں کتنے جتن کئے، قومی اخبار تو کیا عام روزنامہ بھی اپنے آپ کو اس فریضے سے لاتعلق نہیں رکھ سکتا۔ 'جنگ‘ نے ان دنوں جو بویا تھا قوم اُسے آج کاٹ رہی ہے۔ 'جنگ‘ نے صرف سیاسی حالات اور اقتدار کی سازشوں سے ہی عوام کو بے خبر نہیں رکھا، ناپاک اور بدطینت حکمرانوں کو اقتدار کے آخری لمحوں تک خوش کرنا اور ان کی سبکدوشی یا جلاوطنی کے بعد ان کی پشت پر ایک لات لگا، اس سے بدتر حکمرانوں کی کاسہ لیسی کرنا، علاوہ اس کے رشوت دے کر نیوز پرنٹ کے حصول کیلئے جھوٹے دعوے داخل کرنا اور پھر انہیں بلیک میں فروخت کرکے نفع کمانا بھی 'جنگ‘ کو ایک صنعت بنانے کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اس مجرمانہ عمل کا آغاز سب سے پہلے 'جنگ‘ ہی نے کیا تھا۔ فلمی اداکاراؤں کو نوجوانوں کیلئے آئیڈیل بنانے کا فریضہ بھی سب سے پہلے 'جنگ‘ نے انجام دیا ہے۔ جنگ سے پہلے اُردو صحافت میں اس کی نظیر نہیں ڈھونڈی جا سکتی۔ اخبارات کو اس بُرائی میں مبتلا کرنے کا اعزاز 'جنگ‘ کو حاصل ہے۔ کم از کم 1960ءتک پنجاب کی صحافت اس گندگی سے پاک تھی جس کے تراکم سے کراچی میں سرانڈ پیدا ہو گئی تھی۔ میر خلیل الرحمان ابتداءمیں کئی سال تک مجالس یا قومی فورموں کو اپنی سرپرستی سے رونق افروز نہیں کرتے تھے۔ جب جھجک جاتی رہی تو کہا کرتے تھے، صاحب وہ زمانہ اور ہی تھا جب اخبار واقعتا جہاد کرتے تھے۔ میر صاحب زمیندار تو قیام پاکستان کے بعد بھی نکلتا رہا تھا، اسی سے آپ حوصلہ پا لیتے! پاکستان کے تمام طبقات کی ضروریات کا خیال بھی 'جنگ‘ نے خوب کیا ہے۔ سفلی صحافت کی وجہ سے 'جنگ‘ پر سخت تنقید ہوئی تو اپنی منافقانہ روش اور اسلام دشمنی کے تاثر کو کم کرنے کیلئے بہت بعد میں مذہبی ایڈیشن کا اضافہ کیا گیا۔ بے ضرر سطحی معلومات پر مبنی ایڈیشن کے ساتھ ہی نیم عریاں تصاویر 'جنگ‘ کے مذہبی طبقے کی نمائندگی کی چغلی کھا رہی ہوتی تھیں۔ 'جنگ‘ کے ایک مذہبی کالم نگار شیر فروشی کے ساتھ ملت فروشی کا کام بھی کرتے تھے اور دوسرے کالم نگار محض قرآن مجید کا ترجمہ شائع کرکے اسلامی نظریہ حیات کی خدمت کرتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسلامیات کا پرچہ دینے والے طالب علم جو ایک مشکل سے دو چار تھے۔ پہلے وہ آیات اور ان کا ترجمہ خود لکھ کر امتحانی ہال میں آتے تھے، 'جنگ‘ نے ان کی یہ مشکل آسان کردی تھی۔ شروع میں میر خلیل الرحمان نے مسلم لیگی قبا پہن کر صحافت میں قدم رکھا تھا، سرمایہ دار بننے کے عمل میں آج تک کوئی یہ نہ جان سکا کہ اُن کے عقائد کیا تھے۔ ذاتی طور پر وہ کمیونسٹ تھے نہ دہریے۔ البتہ ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جنگ کے مستقل اور بنیادی کالم نگار ہمیشہ ترقی پسند یا سوشلسٹ رہے ہیں۔ مرزا جمیل الدین عالی کو چھوڑ کر ابراہیم جلیس، ابن انشائ، احمد ندیم قاسمی اور انعام درانی سب سکہ بند بائیں بازو کے ادیب ہیں۔ مہمان کالم نگار جو بائیں بازو سے تعلق نہیں رکھتے تھے، پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل ہوتے تھے، اس لئے ان کا کالم دینا 'جنگ‘ کی مجبوری بن گئی تھی۔ جس قوت نے پاکستان بنوایا تھا وہاں ترقی پسند تحریک زیادہ نہ چل سکی مگر یہ اعزاز روزنامہ 'جنگ‘ کو حاصل ہے کہ مسلم لیگ کی سیاست کو اپنا کر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کرنے والے اخبار کے تمام مستقل کالم نگار بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ ترقی پسند ہونے کی وجہ سے اگر انہیں کوئی نظریاتی لوگ سمجھتا تھا تو جنگ سے وابستگی نے اُسے بھی داغدار کردیا تھا۔ خدا جانے مسلم اُمہ کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، اسپین ہو یا سمرقند بخارا ہو یا بغداد یا پھر اپنا پیارا پاکستان، سازشیں ہمیشہ ان کے اپنے وطن میں پنپتی ہیں اور ملک گنوانے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ سب ہمارے اپنوں کا کیا کرایا ہے۔ اگر 'جنگ‘ برسر جنگ نہ ہوتا تو ایک متعین ہدف کو پالینے کے لئے متحرک ہونے والی قوم اتنی جلد گم گشتہ راہ نہ ہوتیابو الاعلی مودودی
سید ابو الاعلی مودودی | |
---|---|
پیدائش | 1903ء بمطابق 1321ھ اورنگ آباد ، دکن - برطانوی ہندوستان |
وفات | 1979ء بمطابق (بعمر 76 سال) بفیلو ، نیو یارک ، امریکہ |
عہد | دور جدید - 20 ویں صدی |
مکتبہ فکر | اہلسنت والجماعت - غیر مقلد |
شعبہ عمل | تفسیر ، حدیث ، فقہ ، سیاست ، احیائے اسلام |
شہریت | ہندوستان ، پاکستان |
تصانیف | تفہیم القرآن، خلافت و ملوکیت، الجہاد فی الاسلام، پردہ،سود |
مؤثر شخصیات | ابن تیمیہ ، محمد علی جوہر ، علامہ محمد اقبال ، حسن البناء ، شاہ ولی اللہ |
متاثر شخصیات | سید قطب ، جلال الدین عمری ، یوسف اصلاحی ، اسرار احمد ، حافظ محمد سعید ، سید علی شاہ گیلانی ، یوسف القرضاوی ، غلام اعظم ، قاضی حسین احمد |
اسلام کی دنیا بھر میں موجودہ پذیرائی سید ابوالاعلی مودودی اور شیخ حسن البناء (اخوان المسلمون کے بانی) کی فکر کا ہی نتیجہ ہے جنہوں نے عثمانی خلافت کے اختتام کے بعد نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پذیرائی بخشی۔ سید ابوالاعلی مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردار تھا۔ پاکستانی حکومت نے انہیں قادیانی فرقہ کو غیر مسلم قرار دینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پر عالمی دباؤ کے باعث عملدرآمد نہ ہوسکا۔ سید ابوالاعلی مودودی کو انکی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپکی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔
ابتدائی زندگی
سید ابوالاعلٰی مودودی 1903ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔
1914ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہو گئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔
اس زمانے میں دارالعلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہی تھے جو مولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ تاہم والد کے انتقال کے باعث وہ دارالعلوم میں صرف چھ ماہ ہی تعلیم حاصل کر سکے۔
بطور صحافی
کیونکہ سید مودودی لکھنے کی خداداد قابلیت کے حامل تھے اس لیے انہوں نے قلم کے ذریعے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے اور اسی کو ذریعہ معاش بنانے کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور متعدد اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا جن میں اخبار "مدینہ" بجنور (اتر پردیش)، "تاج" جبل پور اور جمعیت علمائے ہند کا روزنامہ "الجمعیت" دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔1925ء میں جب جمعیت علمائے ہند نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی نے بطور احتجاج اخبار"الجمعیۃ" کی ادارت چھوڑ دی۔
پہلی تصنیف
جس زمانے میں سید مودودی"الجمعیۃ" کے مدیر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین کی جس پر کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور علانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت سید مودودی کی عمر صرف 24 برس تھی۔
اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
” | اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے | “ |
ترجمان القرآن
"الجمعیۃ" کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑکر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔ جہاں اپنے قیام کے زمانے میں انہوں نے مختلف کتابیں لکھیں، اور 1932 میں حیدرآباد سے رسالہ"ترجمان القرآن" جاری کیا۔1935ء میں آپ نے "پردہ" کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک کتاب تحریر کی جس کا مقصد یورپ سے مرعوب ہوکر اسلامی پردے پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کے علاوہ "تنقیحات" اور"تفہیمات" کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔
اسلامی قومیت
1938ء میں کانگریس کی سیاسی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ بہت سے مسلمان اور خود علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ہندوؤں کے ساتھ مل گئی۔کانگریس کے اس نظریہ کو "متحدہ قومیت" یا "ایک قومی نظریہ" کانام دیا جاتا تھا۔ سید مودودی نے اس نظریے کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جو کتابوں کی صورت میں "مسئلہ قومیت" اور ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش" حصہ اول و دوم کے ناموں سے شائع ہوئی۔ مولانا مودودی صاحب پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ اپنے ایک کتابچے میں لکھتے ہیں کہ:۔
” | پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں۔۔۔ اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی [1] | “ |
” | اس موضوع پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے ’’مسئلہ قومیت“ کے عنوان سے ایک سلسلہ ءِ مضامین لکھا جو اپنے دلائل کی محکمی، زور ِ استدلال اور زور ِ بیان کے باعث مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا اور جس کا چرچا بہت تھوڑے عرصے میں اور بڑی تیزی کے ساتھ مسلمانوں میں ہوگیا۔ اس اہم بحث کی ضرب متحدہ قومیت کے نظریہ پر پڑی اور مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کا احساس بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔ قومیت کے مسئلہ پر یہ بحث محض ایک نظری بحث نہ تھی بلکہ اس کی ضرب کانگریس اور جمعیت علماء ہند کے پورے موقف پر پڑتی تھی۔ ہندوئوں کی سب سے خطرناک چال یہی تھی کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کی جدا گانہ قومیت کا احساس کسی طرح ختم کرکے ان کے ملی وجود کی جڑیں کھوکھلی کردی جائیں۔ خود مسلم لیگ نے اس بات کی کوشش کی کہ اس بحث کا مذہبی پہلو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے تاکہ عوام کانگریس کی کھیل کو سمجھ سکیں اور اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں[2]۔فیض احمد فیض
اردو ادب کے بہت سے ناقدین کے نزدیک فیض احمد فیض (1911 تا 1984) غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر ھیں۔ آپ تقسیم ہند سے پہلے 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز کمیونسٹ تھے ۔
سوانحپیدایشفیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ایک علم پسند آدمی تھے ۔ آپ کی والدہ کا نام سلطان فاطمہ تھا ۔تعلیمآپ نے ابتدای مذ ھبی تعلیم مولوی محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی ۔ بعد ازاں 1921 میں آپ نے سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا ۔ آپ نے میٹرک کا امتحان مرے سکول سیالکوٹ سے پاس کیا اور پھر ایف اے کا امتحان بھی وہیں سے پاس کیا ۔ آپ کے اساتذہ میں میر مولوی شمس الحق ( جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے ۔ آپ نے سکول میں فارسی اور عربی زبان سیکھی۔بی اے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پھر وہیں سے 1932 میں انگلش میں ایم اے کیا۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔ کیریرانہوں نے 1930ء میں ایلس فیض سے شادی کی۔1951 میں آپ نے ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی۔ اور پھر ھیلے کالج لاہور میں ۔ 1942 میں آپ فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ھوگے۔ اور محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا ۔ 1943 میں آپ میجر اور پھر 1944 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا گے۔ 1947 میں آپ فوج سے مستعفی ہو کر واپس لاہور اگے۔ اور 1959 میں پاکستان ارٹس کونسل میں سیکرٹری کی تعینات ھوے اور 1962 تک وہیں پر کام کیا۔ 1964 میں لندن سے واپسی پرآپ عبداللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کی حیثیت سے ملازم ہو گئے۔ 1947 تا 1958 مدیر ادب لطیف مدیر لوٹس لندن، ماسکو ، اور بیروت.راولپنڈی سازش کیسوہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھاوہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے 9 مارچ 1951 میں آپ كو راولپنڈی سازش كیس میں معا ونت كے الزام میں حكومت وقت نے گرفتار كر لیا۔ آپ نے چار سال سرگودھا، ساھیوال، حیدر آباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ آپ كو 2 اپریل 1955 كو رہا كر دیا گیا ۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں۔ ] پس زنداں شاعری کے مجموعے |
No comments:
Post a Comment